اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نااہلی کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے موکل کے ٹیکس گوشوارے سیل شدہ ڈبے میں سپریم کورٹ میں پیش کردئیے ۔ منگل کو چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی عمران خان کی نااہلی کیلئے دائر درخواست کی سماعت کی ٗ
بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب بھی شامل تھے۔سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ٹیکس گوشواروں سے واضح ہو جائیگا عمران خان نے ٹیکس چوری نہیں کی جبکہ مقدمے میں ٹیکس چھپانے اور ایمنسٹی اسکیم سے غلط فائدہ اٹھانے کا الزام ہے تاہم پاکستان میں غیر ملکی آمدن ظاہر کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی اور عمران خان نے غیرملکی کمائی ظاہر نہیں کی جبکہ ایف بی آر نے بھی انہیں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ آسٹریلیا اور لندن سے کرکٹ کمائی اور لندن فلیٹس کی ادائیگی کا بینک ریکارڈ مل چکا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام دستاویزات درخواست کے ہمراہ جمع کروا دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جواب میں واضح طور پر کہا گیا کہ عمران خان لندن فلیٹ کے مالک تھے جس پر نعیم بخاری نے دلائل میں کہا کہ 16 دسمبر 1983 کو 11 ہزار 750 پاؤنڈ جمع کرائے گئے جبکہ لندن فلیٹ کیلئے 1983 میں ڈاؤن پیمنٹ کی گئی اور لندن فلیٹ خریداری میں منی لانڈرنگ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کیا کہتا ہے ہمیں سروکار نہیں، منی لانڈرنگ کا معاملہ دوسرے فریق نے نہیں اٹھایا اس لئے عدالت نے اپنے اطمینان کے لیے دستاویزات منگوائی تھی۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو 1988میں ایک لاکھ 90 ہزار پاؤنڈز ملے جبکہ رقم مختلف مراحل میں منتقل کی گئی اور رائل ٹرسٹ بینک سے 13.75فیصد پر قرض لیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لندن فلیٹس کے لئے آپ کے مطابق 61 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی پہلے کی جا چکی تھی
جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ انٹرسٹ کی رقم شامل کر کے فلیٹ کی قیمت ایک لاکھ 61 ہزار پاؤنڈ ہوگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1971میں عمران خان پاکستان کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوئے اور 1971 سے 1976 تک وہ ووسٹا شائر کی طرف سے کھیلتے رہے تاہم کاؤنٹی کرکٹ کا ریکارڈ نہیں مل سکا کیوں کہ کاؤنٹی 20 سال پرانا رکارڈ نہیں رکھتی، 1977 سے 1979 تک عمران خان نے کیری پیکر کرکٹ سیریز کھیلی جبکہ آصف اقبال،
ظہیر عباس سمیت دیگر کھلاڑی بھی یہ سیریز کھیلتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان نیازی سروسز چھپا کر صادق و امین نہیں رہے ٗ عمران خان 1981سے ٹیکس فائلر ہیں، ٹیکس لاگو ہو یا نہیں، آمدن ظاہر کرنا دوسرے فریق کے بقول لازمی ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان 85-1984میں آسٹریلیا میں نیو ساؤتھ ویلز کے ساتھ بھی کھیلتے رہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ
کیا 85-1984 میں عمران خان سسکس کے ساتھ بھی منسلک رہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ تمام منی ٹریل سامنے آچکی ہے جبکہ مشتاق احمد کا کنٹریکٹ بطور نمونہ منسلک کیا ہے ۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کے خرچ کی جمائما نے ادائیگی کی اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کے خرچ کی جمائما نے جو ادائیگی کی اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جمائما سے تین اقساط میں 26 ہزار ڈالر ملے جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا
یہ رقم جمائما اور راشد خان کے درمیان طے ہو گئی تھی اور یہ وہ رقم تھی جو راشد خان نے خرچ کی، بعد میں جمائما نے ادا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے آپ کے تحریری جواب میں یہ موقف نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا جمائما نے کبھی یہ کہا کہ راشد خان سے ان کا معاملہ طے ہوا تھا جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دونوں کے درمیان معاملہ طے ہونے کے دستاویزی شواہد نہیں۔نعیم بخاری نے دلائل میں کہا کہ شک و شبہ سے بالاتر ثابت ہو گیا کہ
بنی گالہ اراضی جمائما کی رقم سے خریدی گئی اور بنی گالہ اراضی جمائما کے رہتے ہوئے ہی خریدی جس کے لئے 7 مئی 2003 کو بذریعہ بینک ادائیگی کی گئی جبکہ جمائما کی رقم سے آرکیٹیکٹ کو بھی ادائیگی کی گئی۔اس موقع پر وکیل اکرم شیخ نے نکتہ اٹھایا کہ بینک ریکارڈ کی متعلقہ بینکوں سے تصدیق کرائی جائے جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بعض بینکوں کا علم نہیں کہ اب ہیں بھی یا ختم ہو گئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ
آپ یہ بھی بتائیں بینک ختم ہو گئے تو ریکارڈ کہاں سے آیا ٗ آپ کے پہلے اور اب کے موقف میں فرق ہے، عمران خان کی اسمبلی میں تقریر اور جمائما کے انٹرویو کا بھی معاملہ ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ قطری خط کتنی شرم کا باعث بنا یہ بھی علم ہے ٗریکارڈ کی تصدیق کیلئے لندن بھی جانا پڑا تو جاؤں گا۔