اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت ۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کر دیں۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ تمام دستاویزات پیش کرنے سے پہلے میڈیا میں زیر بحث رہیں.
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک خط قطری شہزادے کا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پر دستاویز میری طرف سے جاری نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے وہاں دلائل بھی دے آئیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عدالت میں جعلی دستاویزات جمع کرائی جائیں گی، فرانزک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے وقت کیلبری فونٹ دستیاب نہیں تھا۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے مزید کہا کہ فرانزک آڈٹ میں پتا چلا کہ دستخط والا صفحہ دوبارہ استعمال ہوا، رپورٹ میں مریم نواز کے دستخط کو بنیاد بنایا گیا ہے جبکہ دونوں صفحات پر ایک جیسی ہی غلطی کی گئی ہے، بظاہر عدالت میں جعلی اور خود ساختہ دستاویزات پیش کی گئیں، اٹارنی جنرل بتائیں کہ جعل سازی پرکیاکارروائی ہوسکتی ہے؟ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس جرم پر 7 سال قیدکی سزاہوسکتی ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل نے یہ جرم کیا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم کیلبری فونٹ پراپناموقف دیں گے۔
جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی،
مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے اور یو اے ای کے خط پر حسین نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جب کہ حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔