اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پانامہ ، ڈان لیکس پر پیدا ہونے والی صورتحال اور سیاسی طوفان سے چین لاتعلق نہیں، کئی بار تشویش کا اظہار کر چکا، سی پیک کی کامیابی کیلئے چینی سفیر اور دیگر چینی نمائندے اپوزیشن پارٹیوں سے کئی ملاقاتیں کر چکے جو بے سود ثابت ہوئیں،مؤقر قومی روزنامے کی رپورٹ میں انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق مؤقر قومی اخبار روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں پانامہ سکینڈل اور ڈان لیکس پر اٹھنے والے سیاسی طوفان سے چین لاتعلق نہیں اس کیلئے یہ صورتحال باعث تشویش ہے۔چین پاکستان میں سی پیک کی تکمیل کیلئے مستحکم اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کا تسلسل چاہتا ہے۔سی پیک پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلافات کے سبب چین پہلے ہی سے پریشان تھا جبکہ اب پانامہ اور ڈان لیکس کے حوالے سے نئی سیاسی افراتفری نے اسے مزید فکر مند کر دیا ہے۔ تحمل پر مبنی ڈپلومیسی کیلئے مشہور چین کا پاکستان میں قائم سفارتخانہ سی پیک پر پاکستان میں پائے جانےوالے سیاسی اختلافات پر پہلے بھی بیان جاری کرچکا ہے جس میں اس نے سیاسی پارٹیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے اختلافات دور کر کے سی پیک کی تکمیل کیلئے سازگار ماحول پیدا کریں ۔ اس مقصد کیلئے چین کی سرکردہ سرکاری شخصیات تحریک انصاف سے ملاقات اور عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ سے میٹنگز بھی کرچکی ہیں لیکن ان ملاقاتوں اور میٹنگز کا نتیجہ کچھ نہ نکل سکا اور اپوزیشن جماعتیں متنازعہ بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔سی پیک پر سیاسی اختلاف رائے پر پہلے سے پریشان چین کو اگرچہ پانامہ کیس اور ڈان لیکس کے حوالے سے ملک میں جاری سیاسی افراتفری نے مزید فکر مند کر دیا ہے تاہم ذریعے کے بقول بیجنگ کو یہ اعتماد ہے کہ سی پیک پاکستان کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے
لہٰذا ریاستی ادارے سیاسی بحران کو اس حد تک نہیں جانے دیں گے کہ سی پیک کے تحت جاری ترقیاتی عمل میں کوئی تعطل آئے یا بیرونی سرمایہ کاری رک جائے۔رپورٹ میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حد درجہ کوشش تھی کہ سی پیک معاہدے پر اس کے دور حکومت میں دستخط ہوں اور یہی وجہ تھی کہ آصف زرداری نےاپنے دور صدارت کے دوران بیجنگ کے ریکارڈ دورے کئے
تاہم چین پی پی دور میں اربوں ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کرنے پر تحفظات رکھتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے انتظام کیا اور جب مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تو سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے میں چین نے ذرا دیر نہیں لگائی اور یہ مسلم لیگ ن کی قیادت پر چینی لیڈر شپ کے اعتماد کا اظہار تھا اور اب چین پاکستان میں ایک مستحکم اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کا تسلسل چاہتا ہے
تاکہ ملک میں غیر یقینی صورتحال پیدا نہ ہو ، ذرائع کے مطابق یہ تمام حالات موجودہ حکومت کے حق میں جاتے ہیں۔ چین نہ صرف موجودہ حکومت پر اعتماد کرتا ہے بلکہ اس کے سرکاری عہدیداران وزیراعظم پنجاب شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کے مداح اور معترف ہیںاور لیگی قیادت کو سی پیک کی تکمیل کیلئے آئیڈیل قرار دیتے