لاہور(آئی این پی)ینگ ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن نے گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث گرفتار ڈاکٹروں سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی۔ ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایف آئی اے کی کارروائی میں گرفتار ہونے والے ڈاکٹروں سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا، جس کیلئے تین کمیٹی تشکیل دے کر اسے گرفتار ڈاکٹروں تک رسائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔
جنرل کونسل نے مزید مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں ۔اگر وائے ڈی اے کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر التمش تحقیقات میں قصور وار قرار پائے گئے تو ان کے خلاف ایسوسی ایشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا تھاکہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث غربت و افلاس بڑھ رہی ہے اور لوگ غربت کے باعث اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں ۔ عوام کو پہلے ہی علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں جبکہ حکومت مزید چار سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کرنے جارہی ہے جسے مستر دکرتے ہیں۔سوسائٹی فار ہیومن آرگنز ٹرانسپلاٹیشن پاکستان کے صدر اور چیف ایگزیکٹو پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ لاہور کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں گردہ کی پیوندکاری کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں،یہ ایک بدترین اخلاق سوزاورغیرقانونی عمل ہے جس میں انسانی اعضاء کی چوری اور پیوندکاری کا عمل کیا گیا ہے،اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اس غیرقانونی اور غیر انسانی فعل میں ملوث ڈاکٹرز ڈاکٹری کے مقدس پیشہ کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں اور ان کا یہ عمل مسیحائی کے پیشہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وہ سوموار کوہنگامی پریس کانفرنس میں خطاب کر رہے تھے۔ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ وہ بطور صدر سوسائٹی آف ٹرانسپلانٹیشن پاکستان اور پی کے ایل آئی کے پلیٹ فارم سے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سعید اختر نے سول سوسائٹی سے اس غیراخلاقی اور غیرقانونی اقدام پر ردعمل کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے حکومت پنجاب اور ایف آئی اے کی بروقت کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پنجاب بروقت اس گھناؤنے عمل کی روک تھام نہ کرتی اور مجرموں کو قانون کے دائرہ کار میں نہ لاتی تو پورے پاکستان میں جاری اس غیرقانونی کاروبار پر سے پردہ نہ اٹھتا۔ ڈاکٹر سعید اختر نے اس مسئلہ پر ایک مرکزی قانونی نظام برائے انسانی اعضاء عطیات اور اس حوالے سے اخلاقیات کو اجاگر کرتے ہوئے مزید کہا کہ انسانی اعضاء کے عطیہ جات کے لئے ایک نظام بنایا جائے۔ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ پی کے ایل آئی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اس مسئلہ کی اخلاقیات اور قانونی تحفظ کے لئے حکومت سے مل کر نئے قانون پر کام کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ انسانی اعضاء کے عطیہ جات کو کنٹرول کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی قانون سازی سے بہت سے اسلامی ممالک جیسے سعودی عربیہ ، کویت ، لبنان، شام اور یو اے ای وغیرہ ان ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہیں جہاں انسانی اعضاء کے عطیہ جات کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے قریب پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا اس فہرست میں نام نہیں ہے حالانکہ عام لوگ انتقال خون اور بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے تصور سے واقف ہیں۔لوگوں کا انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے نقطہ نظر سے ناواقفیت ، پاکستان میں اعضاء کے عطیہ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے 2010میں پاس ہونے والے قانون کی وجہ سے اس گھناؤنے کاروبار میں کافی کمی آئی ہے اور عطیہ جات میں اضافہ بھی ہوا ہے مگر ابھی بھی یہ اضافہ بہت ہی کم ہے۔ ڈاکٹر سعید ٓختر کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ بہت زیادہ تعداد میں ہوسکتا ہے اگر عام لوگوں کے شعور اور معلومات میں اضافہ کیا جاسکے۔ یہ کام ہر مناسب فورم پر کیا جاسکتا ہے۔ علماء اسلام اور ہیلتھ کیئر پروفیشنل اس سلسلہ میں باہم مل کر انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ انسانی اعضاء کی قانونی پیوندکاری کا ایک انٹرنیشنل سطح کا ادارہ ہوگا اور ہم حکومت کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں خامیوں کو دور کریں گے ۔ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ وزیراعلی محمد شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے پی کے ایل آئی کا پہلا فیز دسمبر2017تک مکمل ہوجائے گا جو 300بستروں پر مشتمل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا پہلا آپریشن اللہ کے فضل و کرم سے دسمبر2017میں کیا جائے گا۔
لاہور میں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کا معاملہ‘ مزید انکشافات سامنے آ گئے ۔ ملزمان شہریوں کو اغوا کے بعد ڈرا دھمکا کر گردے نکالتے تھے ۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ریکی کے بعد علم ہوا تھا کہ ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب واقع سوسائٹی میں چند ڈاکٹر گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کرتے ہیں جس پر ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔
ایف آئی اے ٹیم نے ڈاکٹروں کو گرفتار کرکے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ مزید ڈاکٹر بھی شامل ہیں جن کی گرفتاری کی لیے کوششیں جاری ہیں ۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق نجی کلینک میں جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا اور ڈرا دھمکا کر ایک لاکھ روپے گردے کے عوض دیے گئے جبکہ دوسری خاتون شہری کے مطابق ڈاکٹروں نے اس سے گردہ ایک لاکھ تیئس ہزار روپے میں خرید کر اومان کی خاتون کو ڈالا ہے ۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق جلد بڑے کامیابی حاصل کر لی جائے گی ۔سیکریٹری ہیلتھ پنجاب نے کہاہے کہ ایف آئی آر کی کاپی ملتے ہی غیرقانونی گردوں کی پیوندکاری میں ملوث ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کریں گے ۔لاہورمیں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری معاملہ میں انکشاف ہوا ہے کہ گرفتار ڈاکٹرز راہ گیروں کو اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالتے تھے،عامر نامی شخص کا گردہ غیر ملکی شہری کو فروخت کیا گیا،اسےڈرا دھمکا کر ایک لاکھ روپے گردے کے عوض دیے گئےجبکہ انہی ڈاکٹروں نے کلمہ چوک کی رہائشی روشنی کاگردہ ایک لاکھ تیئس ہزار روپے میں خرید کر اومان کی خاتون کو دے ڈالا۔ایف آئی اے نےگردہ بیچنے والے عامر اور روشنی کو بھی حراست میں لے لیاہے، گردوں کے غیر قانونی نیٹ ورک میں مزید ڈاکٹر بھی شامل ہیں، گرفتاری کے لیے رات گئے چھاپے مارے گئے ہیں۔
ایک نجی ٹی وی سے سیکریٹری ہیلتھ پنجاب گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس چھاپہ کا علم نہ تھا، واقعہ کی ایف آئی آر کا انتظار ہے،ان ڈاکٹرز کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ڈاکٹر فواد پلاسٹک سرجری اور ڈاکٹر التمش ریگولر میڈیکل آفیسر ہے،مزید ڈاکٹرز کا گردہ پیوند کاری میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔واقعہ کے بعد محکمہ صحت کی جانب سے بھی جنرل اسپتال سمیت دیگر اسپتالوں میں تحقیقات کی جائے گی،مٹھی بھر لوگ اسپتال میں عوام کو طبی سہولیات بند کر دیتے ہیں۔