پیر‬‮ ، 18 اگست‬‮ 2025 

زوال نعمت سے بچنے کی دعا کیا کریں

datetime 26  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کسی کی آنکھوں دیکھے کچھ سچے قصے۔ برسوں گزرے میں اپنے بچوں کے ساتھ تھا۔مال روڈ لاھور کا وہ حصہ جہاں کچھ شاپنگ مال ہیں اور کچھ کھانے کے مقامات۔ میں نے گاڑی روکی ابھی اترنے کی نوبت نہ آئی کہ میری اس پر نظر پڑی۔ رات دیر تک زندگی کے ہنگاموں میں جاگتی یہ جگہ ان لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی سی اشیاء ہاتھوں میں لیے یہ گاڑی گاڑی گھومتے ہیں۔

کچھ محض سامان بیچتے ہیں اور کچھ بھیک تک مانگ لیتے ہیں۔ اس نے امتحانی گتہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اس پر ایک گھوڑا دھرا ہوا تھا۔گھوڑے کی دم سے باریک سا پائپ اور آخر میں ایک غبارہ سا۔ وہ غبارہ دباتا تو ہوا کے زور سے گھوڑا آگے کو پھدکتا اور ساتھ وہ آواز لگا رہا تھا دس روپے کا صرف دس روپے کا۔ بے اختیار میرا سر گاڑی کے سٹیرنگ سے جا لگا۔ میں غم زدہ تھا یہ ماضی کے لاہور کے ایک بہت ہی بڑے پبلشر کا بیٹا ہے اور کبھی یہ بھی میرا ہم پیشہ تھا” آنکھوں میں نمی اتر رہی تھی اور میں اپنے بچوں کو کہہ رہا تھا کہ زوال نعمت سے بچنے کی دعا کیا کریں اور سنیں گے؟ میں ایک روز مکتبہ قدوسیہ بیٹھا تھا۔ کسی کام سے ساتھ والی دکان پر گیا۔وہاں ایک بزرگ کاندھے پر پٹ سن کی بوری رکھے کسی قدر بے بسی سے بیٹھے تھے۔اسی اثناء میں کچھ اور دوکاندار بھی وہاں آ گئے ۔بحث مباحثہ شروع ہو گیا کوئی لین دین کا جھگڑا تھا۔جن صاحب نے پیسے لینے تھے ان کو معلوم ہوا کہ بابا جی اس دکان پر آئے ہیں تو ان کو پابند کروا لیا کہ جانے نہ پائے۔ ستر کی دھائی میں جب تاج کمپنی کا عروج تھا اور اس کا ہیڈ کواٹر کراچی میں تھا۔ان دنوں تاج کمپنی کوئی نیا قران مارکیٹ میں لاتی تو ان بابا جی کو ان کے گھر میں “سمپل” نہیں بھجواتی تھی بلکہ ان کو ہوائی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھجواتی کہ آ کر وہ قران کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں اور آرڈر دیں۔ آخر وہ سرحد، شمالی علاقہ جات اور کشمیر سب میں اکیلے سپلائی کرتے تھے۔

یعنی ایک تہائی پاکستان اور اکیلے بابا جی۔ پھر بابا جی کے بچے کاروبار میں آ شریک ہوۓ۔ پھر وہی پرانا قصہ کہ دولت کی خرابیاں در آئیں اور سب قصہ پارینہ ہو گیا آج وہی بابا جی ایک عام سے “دکندار” کے محبوس بنے بیٹھے تھے صرف چند ہزار روپے کو۔ جی ہاں غرور کس بات کا۔ یہ دولت ، یہ ثروت کب نسل در نسل چلتی ہے؟ رہا نسب تو وہ آپ کا نہیں رب کی عطا ہے۔ آپ کا کیا کمال؟ تو آپ کا ہے کیا ؟ غرور کس پر کرتے ہیں؟ اور سنیں گے؟ ایک صاحب تھے ہمارے اردو بازار کے ہی۔تب ہمارا مکتبہ قدوسیہ موجودہ جگہ نہیں تھا۔ کرائے کی جگہ تھا۔ تیس برس پرانا قصہ۔ ان کی دکان ہماری دکان سے شائد دس دکانیں آگے نسبتا بہتر جگہ پرمناسب کاروبار اور خوش حال تھے عزت کی کھاتے۔ان کو کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ دکان پر بڑا سال بلیک بورڈ لٹکایا ہوتا اور میچ کا تازہ بہ تازہ سکور چاک سے اس پر لکھتے رہتے۔ یوں بچے شوق سے آتے اور خریداری بھی خوب ہوتی۔ ہم بھی سکول سے واپسی پر اور آتے جاتے محظوظ ہوتے۔ پھر مدت گزری چند برس پہلے وہ ایک بالٹی اٹھائے دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں فروخت کرتے نظر آئے۔ ہاں غرور کس بات کا آپ کرتے ہیں؟۔نہ کیا کریں۔رب کو ہی روا ہے اسی کو سجتا ہے۔۔ہم کو نہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…