ہفتہ‬‮ ، 23 اگست‬‮ 2025 

یہودی فلسطین پر کیسے قابض ہوئے؟

datetime 25  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اب سے کوئی 80 برس قبل تک پورے فلسطین میں کسی ایک جگہ بھی کوئی یہودی بستی موجود نہیں تھی۔عثمانی خلفاء نے پابندی لگا رکھی تھی کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وزٹ ویزے پر فلسطین آسکتے ہیں اور چند روز قیام کرسکتے ہیں لیکن انہیں فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

عثمانی خلفاء کے علم میں یہ بات تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر سکیں۔ اس لیے اس سلسلہ میں عثمانی خلافت کا رویہ بے لچک تھا اور وہ کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہرتزل نے متعدد بار ان سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں مگر سلطان مرحوم نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک بار ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کے بعد وہ ہرتزل سے ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے۔ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے خلاف اس کے بعد تحریک چلی اور انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ 1920

ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فلسطین اس کی عملداری سے نکلا تو اسے برطانیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور برطانوی گورنر کی زیر نگرانی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی آتے اور فلسطین میں زمین خرید کر آباد ہو جاتے۔ اس موقع پر سرکردہ علماء کرام نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہشمند ہیں اس لیے یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اراضی یہودیوں کو فروخت نہ کریں۔ اس فتویٰ کے سلسلہ میں اگر قارئین مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب’’بوادر النوادر‘‘میں اسی موضوع پر خود ان کا تفصیلی فتویٰ موجود ہے اسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر علماء کرام کی یہ مہم کارگر نہ ہوئی اور چونکہ یہودی دگنی تگنی قیمتوں پر زمین خرید رہے تھے اس لیے فلسطینیوں نے رقم کی لالچ میں علماء کرام کے فتویٰ کو نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ آج پون صدی کے بعد سب کے سامنے ہے کہ فلسطین کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔ اسرائیلی ریاست نہ صرف قائم ہوچکی ہے بلکہ پوری عرب دنیا کے لیے ناسور کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے، بیت المقدس پر یہودی اقتدار قائم ہو گیا ہے،

فلسطینی خود اپنے ملک میں بے وطن تصور کیے جارہے ہیں جبکہ یہودیوں اور ان کے عالمی استعماری سر پرستوں نے پوری دنیامیں ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…