اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے ، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم مختلف زاویوں سے تحقیقات کرکے رپورٹ عدالت عالیہ میں جمع کروائے گی۔ جے آئی ٹی (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم) کا قیام اس وقت عمل میں لایا جاتا ہے جب کسی دہشت گرد سے تفتیش کرنی ہو، اس ٹیم میں ملک کی مختلف ایجنسیوں کے لوگ اور متعلقہ تفتیشی اداروں کو شامل کیا جاتا ہے،
جے آئی ٹی کے قیام کی منظوری وزارت داخلہ کی جانب سے مخصوص وقت کے لیے دی جاتی ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا جاتا ہے، رپورٹ حساسیت کو برقرار رکھنے کے لیے افسران کے نام خفیہ رکھے جاتے ہیں اور مختلف کلرز کو بطور کوڈ استعمال کیا جاتا ہےجے آئی ٹی میں جوکوڈنام استعمال ہوتے ہیں ان میں چمچہ ،مرغا،چھوٹووغیرہ زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں اوران ناموں سے ہی ملزمان کوبلانے کےلئے پکاراجاتاہے۔ وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد دہشت گردی کے مقدمے میں نامزد ملزم سے قانون نافذ کرنے والے اور تفتیشی ادارے مختلف زاویوں سے سوال کرتے ہیں اور اس کے جواب اکٹھا کرکے ایک رپورٹ ترتیب دیتے ہیں، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی مقررہ مدت کے بعد اپنی رپورٹ جمع کروانے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ تاہم عدالت صرف اس کی رپورٹ پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ملزم کا جج کے روبرو جرم کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بے معنی تصور کی جاتی ہے، ٹیم میں نامزد ہونے والے افسر پابند ہوتے ہیں کہ وہ دوران تفتیش کوئی بات کسی فریق سے نہیں کریں گے۔ وزیراعظم سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں چوہدری نثار کے ماتحت ایف آئی اے شامل ہوگی،
ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر اس جے آئی ٹی کا سربراہ ہو گا، اسحاق ڈار کے ماتحت ادارے ایف بی آر، سکیورٹی ایکسچینج، اسٹیٹ بنک اور اس کے علاوہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے۔