اسلام آباد(جاوید چوہدری )مردان یونیورسٹی کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ قوم چار دن کے بعد بھی شاک سے باہر نہیں آئی اور شاید یہ باہر آ بھی نہ سکے ‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ابھی تک مسائل کی جڑ نہیں پکڑ رہے‘ ہم دہشت گردی کو بڑا مسئلہ سمجھ رہے ہیں جبکہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں‘ انتہا پسندی ہے‘ آپ دہشت گردوں کو گولی مار سکتے ہیں‘ آپ ان کے خلاف ضرب عضب اور ردالفساد جیسےآپریشن کر سکتے ہیں لیکن
آپ انتہا پسندی کےخلاف کوئی آپریشن کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ اسے گولی لاٹھی سے کنٹرول کر سکتے ہیں کیونکہ انتہا پسندی جسم پر نہیں ہوتی یہ مائینڈ میں ہوتی ہے‘ آپ اسے جب تک اندر سے ٹھیک نہیں کرتے‘ یہ ٹھیک نہیں ہو تی اور ہمارے ملک میں انتہا پسندی اب یونیورسٹیز‘ انجینئرنگ یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز تک پہنچ گئی ہے‘ فوج نے 14 اپریل کو لاہور سے نورین نام کی ایک خاتون گرفتار کی‘ یہ میڈیکل کالج کی طالبہ تھی اور اس کے والد یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں‘ یہ لڑکی ایسٹر پر لاہور کے ایک چرچ میں خود کش حملہ کرنے والی تھی‘ سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کو انجینئرنگ یوینورسٹی لاہور کے ایک طالب علم نے چار ساتھیوں کے ساتھ اغواء کیا‘ سانحہ صفورا کا ماسٹر مائینڈ سعد عزیز آئی بی اے کا طالب علم تھا‘اس نے ابتدائی تعلیم بیکن ہائوس سے حاصل کی تھی‘ سعد عزیز کے ایک ساتھی نے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری لی تھی اور تیسرا ساتھی کراچی یونیورسٹی کا طالب علم تھا‘ جنید جمشید پر حملہ کرنے والے نوجوان بھی یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے اور اب مردان یونیورسٹی کے انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنے ساتھی کو انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا‘ مشال خان کی لاش کی بےحرمتی کی گئی۔یہ واقعات کیا ثابت کرتے ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں انتہا پسندی میڈیکل کالجز‘انجینئرنگ یونیورسٹیز اور جنرل یونیورسٹیوں تک پہنچ چکی ہے اور ہم جب تک اسے کنٹرول نہیں کریں گے‘ ہم اس وقت تک دہشت گردی کی یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘ کیا ہماری حکومتوں کو اس خوفناک صورتحال کا اندازہ ہے۔