لاہور(این این آئی) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ ادارہ کسی کی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے، بہادری اور دلیرانہ انداز میں بلا جھول فیصلے کریں، اگر کوئی ہمارے فیصلوں سے ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن ہم نے کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونا، بد قسمت ہے وہ جج جو مصلحتوں کا شکار ہوکر فیصلے کرتاہے، تمام جوڈیشل افسران اپنی استعداد کار کے مطابق پوری لگن، دیانتداری اور محنت سے اس ادارے کی سربلندی کیلئے کام کریں
اور میرٹ کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں،لاہور ہائی کورٹ میں بننے والے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں جوڈیشل افسران کیلئے ویلفیئر و ڈویلپمنٹ، پرفارمنس رپورٹس، ٹریننگ اور تمام امور سے متعلقہ کام ہوگا۔ فاضل چیف جسٹس پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ترقی پانے والے ججز سے خطاب کر رہے تھے واضع رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں 38 سینئر سول ججز کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور 109 سول ججز کو سینئر سول جج کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی گئی تھی۔جوڈیشل افسران سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ضلعی عدلیہ سے بہت سے امیدیں وابسطہ ہیں، تمام جوڈیشل افسران کی ترقی میرٹ پر ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامی کمیٹی کے اجلاس سے قبل جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کی پانچ رکنی کمیٹی نے معیار پر پورا اترنے والے ججز کی ترقی کی سفارش کی، جسے انتظامی کمیٹی نے مکمل غور خوض کے بعد منظوری دی، تمام ترقیاں سو فیصد میرٹ کی بنیاد پر ہوئیں، سفارش کلچر کو ختم کردیا ہے اور آئندہ بھی یہی پالیسی رہے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ضلعی عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد کو بڑھانا چاہتے ہیں،
اس پیشے میں مرد و خواتین کی کوئی تفریق نہیں ہے، عدلیہ جینڈر فری ادارہ ہے، جج صرف جج ہوتا ہے ، تا ہم خواتین ججز کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے رہے ہیں تاکہ خواتین ججز فیصلے کرتے وقت گھبرائیں اور نہ کسی دبا کا شکار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس ادارے کو اکیلا نہیں چلا سکتا، ہم سب کو مل کر چلانا ہے، یہ ادارہ تب مضبوط ہوگا جب ہم اس منصب کو پورا کریں جو اللہ تعالی نے ہمیں سونپا ہے۔ اداروں کو چلانے کے کچھ رہنما اصول ہوتے ہیں جو ہمارے بانی پاکستان اور ہمارے قائد محمد علی جناح نے واضح کر دیئے ہیں
یعنی ایمان ، اتحاد اور تنظیم۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنا لیں تو کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ فاضل چیف جسٹس نے جوڈیشل افسران سے کہا کہ ورزش کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنائیں، خود کو توانا ، تندرست اور چست رکھیں، انصاف کی فراہمی کا کام کوئی بیس بیس اوورز کا میچ نہیں بلکہ لمبا میچ ہے، اس کیلئے آپ کا ہمیشہ جوان رہنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے سپورٹس کلب بنانے کی تجاویز زیر غور ہیں تاکہ جوڈیشل افسران
اپنے کام سے وقت نکال کر اپنی صحت پر بھی دھیان دے سکیں،اس سے زندگی منظم ہوتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ ایک ٹیم کی مانند ہے، اس میں کسی بھی قسم کی گروہ بندی کی گنجائش نہیں ہے، یادرکھیں اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے یا ان ٹانگیں کھینچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا،آ اعتماد رکھیں ہم نے گورپس یا سفارش کی بنیاد پر تبادلوں اور ترقیوں کی پالیسی کو مسترد کردیا ہے، محنت سے کام کریں اور اچھا کام کرنے والے ساتھیوں کو سپورٹ کریں، ہم نے ایک ٹیم بن کر اس ادارے کو
آگے لیکر جانا ہے۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ فرد معنی نہیں رکھتے ، ادارے ہی مقدم ہوا کرتے ہیں، اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر ادارے کی شہرت کو دا پر نہ لگائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ کی ایڈوائزی کمیٹی آپ کی اپنی ہے، اس میں تمام ججز کو کام کرنے کا موقع ملے گا، تاہم اس کو مزید بہتر بنانے کیلئے اپنے مشوروں سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صوبہ بھر کے تمام اضلاع کو دورہ کر رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ وہ جہاں جائیں ، انہیں بہترین کھانے نہیں بلکہ
بہترین مشورے دیئے جائیں، ہم نے سٹیٹس کو سے ہٹ کر کام کرنا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ضلع میں تین سینئر سول ججز لگانے کے فیصلے سے ایک طرف تو سول ججزکی پروموشن کے دروازے کھلے ہیں اور دوسری طرف عام آدمی کو جلد انصاف کی فراہمی کی امید ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تینوں سینئر سول ججز میں سے ایڈمنسٹریٹو جج کی ذمہ داریوں زیادہ ہیں، ایڈمن جج کو بطور سروس ایجنسی بھی کام کرنا ہے اور کسی بھی کوریئر ایجنسی سے تیز کام کرنا ہے، اگر ان تمام تر اقدامات کو باوجود
سائلین کے مقدمات جلد نہ لگیں تو بہت افسوس کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایڈمن جج نے لاہور ہائی کورٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ساتھ بطور رابطہ کار کاکام بھی کرنا ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بننے والے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں جوڈیشل افسران کیلئے ویلفیئر و ڈویلپمنٹ، پرفارمنس رپورٹس، ٹریننگ اور تمام امور سے متعلقہ کام ہوگا۔ فاضل چیف جسٹس نے خواہش کیا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں جنرل ٹریننگ پروگرام کے تحت
ہونے والے تمام ٹریننگ پروگرامز کے شرکاسے کم از کم ایک سیشن ضرور کیا کریں تاکہ ٹیلنٹ ہنٹ میں آسانی ہو۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل افسران کی بیرون ممالک ٹریننگ بھی بہت مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ میں لاکھوں کی تعداد میں زیر التوامقدمات رسمی انداز میں نمٹائے نہیں جاسکتے ، اس کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں، جن میں مصالحتی مراکز بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا ضلعی عدلیہ کو فنکشنل کرنے کیلئے متذکرہ بالا تمام
اقدمات صوبائی عدلیہ کیلئے روڈ میپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ صوبے کی عوام کو جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔قبل ازیں فاضل چیف جسٹس نے ترقی پانے والے تمام جوڈیشل افسران سے ہاتھ ملایا اور انہیں مبارکباد دی۔ اس موقع پر رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سید خورشید انور رضوی،ڈائریکٹر جنرل ڈسٹرکٹ جوڈیشری محمد اکمل خان اور ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عظمی اختر چغتائی بھی موجود تھیں۔