اسلام آباد (آن لائن ) اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے لاہور سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں ہمیں مطمئن کیاجائے کہ تاریخی عمارتوں کونقصان نہیں پہنچے گا ،صرف مفروضوں پریقین کرکے یہ نہیں کہہ سکتے کہ منصوبہ تاریخی عمارتوں کے نقصان کاباعث نہیں بنے گا،
جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہان دستاویزات کا جائزہ لیناہے جس میں کہاگیاکہ منصوبہ تاریخی ورثہ کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا،معاملے پرعدالت نے دوماہرین سے رپورٹ بھی طلب کی ہے ،ماہرین نیسپاک کی رپورٹ کودرست قراردیتے ہیں تو ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار نہیں رکھاجاسکتا،پیر کوکیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس مقبول باقر ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل 5رکنی لارجربنچ نے کی ،دوران سماعت عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی جانب سے کافی زیادہ دستاویزات عدالت میں جمع کروائی گئی ہیں ،اتنی زیادہ دستاویزات کودیکھنے کے لیے وقت درکار ہے ، اس پر جسٹس اعجاز احسن نے کہا کہ آپ کی تشویش ہماری تشویس ہے ،لاہور ہائی کورٹ میں بھی آپ نے ہی یہ کیس لڑاہے ،کیس کاہر پہلوآپ کی فنگرٹپس پر ہے ،دوسرے کیسز کوالتومیں رکھ کرمیٹروٹرین کے مقدمے کوترجیح دی گئی ہے، جبکہ درخواست گزار عبداللہ ملک نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میرے وکیل اظہرصدیق بیمار ہیں،عدالت کیس کوملتوی نہیں کرتی تومجھے وکیل تبدیل کرنے کی اجازت دیدی جائے ،اس پرعدالت نے کیس ملتوی کرنے کے معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کوبلیک میل کرنے کی کوشش نہ کریں ،
جس نے اپناکیس واپس لیناہے لے لیں ،یہ سول جج کی عدالت نہیں جہاں آپ وکلاکاجتھالے آئیں گے ،ہمیں دھمکیاں نہ دیں یہ شیخوپورہ کی سول عدالت نہیں سپریم کورٹ ہے ، اس پر درخواست گزار عبداللہ ملک نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہم نے بھی خون دیاہے ،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ خون دیاہے بلڈ بینک تونہیں کھول رکھا جبکہآصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹھیک ہے میں کیس چلانے کے لیے تیار ہوں ،عدالت کے سوالات کے جوابات نہ دے سکی تووجہ آپ خود سمجھ جائیے گا ،اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیاآپ کولکھ کردے دیں کہ سوال نہیں پوچھیں گے ،دوران سماعت درخواست گزار آئی اے رحمان کے وکیل حواجہ احمد احسین کا کہناتھا کہ اورنج لائن ٹریک بننے سے
تاریخی مقامات نظر نہیں آئیں گے ،نظرنہ آنابھی ورثے کو متاثرکرنے کے مترادف ہے ،منصوبے کے لیے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے قوانین مدنظر نہیں رکھے گئے ،اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی آواز بہت اونچی ہے تحمل سے بات کریں ،جس پر وکیل احمد حسین کا کہناتھا کہ اس کیس میں تحمل سے کام لینامشکل ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دلائلمیں اونچی آواز سے زیادہ مواد پرتوجہ دینی چاہیے،لڑائی میں انچابولنے پرآپ کوکوئی نہیں روکے گا ، اس ہر وکیل کا کہنا تھا کہ ثقافتی ورثے کے دوسوفٹ اطراف ترقیاتی کام نہیں ہوسکتے ،ترقیاتی کاموں کومتعلقہ حکام کی پیشگی اجازت سے مشروط کیاگیاہے،اجازت دیتے وقت بھی ورثے کاتحفظ یقینی بناناضروری ہے ،تاریخی عمارات کے 200فٹ اطراف میں کوئی کھمبایاپلر نہیںلگایاجاسکتا
اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پلرزاگرترقیاتی اسکیم کالازمی حصہ ہوں توکیسے توروک سکتے ہیں،اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی تاریخی عمارتوں کے سامنے میٹرو ٹرین سڑک کے اوپر سے نہیں ،دہلی اور استنبول میں بھی میٹروٹرین تاریخی عمارتوں کے سامنے سے نہیں گزاری گئی ،میٹروٹرین نجی کمپنی منصوبہ ہوتاتوڈی جی آثارقدیمہ کبھی این او سیجاری نہ کرتے ،ڈی جی آثارقدیمہ نے این اوسی پراجراکا فیصلہ غیرجانبدارانہ نہیں کیا ہے ،میٹروٹرین سے تاریخی عمارتوں کونقصان نہیں پہنچے گاکیاعدالت خوداس بات سے مطمئن ہے ، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں ہمیں مطمئن کیاجائے کہ تاریخی عمارتوں کونقصان نہیں پہنچے گا ،
صرف مفروضوں پریقین کرکے یہ نہیں کہہ سکتے کہ منصوبہتاریخی عمارتوں کے نقصان کاباعث نہیں بنے گاجبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات کا جائزہ لیناہے جس میں کہاگیاکہ منصوبہ تاریخی ورثہ کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا،معاملے پرعدالت نے دوماہرین سے رپورٹ بھی طلب کی ہے ،ماہرین نیسپاک کی رپورٹ کودرست قراردیتے ہیں تو ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار نہیں رکھاجاسکتا، عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی ہے ۔