اسلام آباد(آئی این پی )فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کے مسودے کا جائزہ لینے کیلئے قائم کی گئی ذیلی کمیٹی کا پہلا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اورایم کیو ایم کے حکومتی مسودے پر تحفظات برقرار ،جمعیت علمائے اسلام (ف) نے نئے آئینی مسودے کی حمایت کا اعلان کردیا ،پیپلزپارٹی کی شازیہ مری اجلاس میں اپنے تحفظات پیش کر کے فوراً واپس چلی گئیں ،
وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ آئینی مسودے پر دو جماعتوں کا اتفاق جبکہ دو جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے ، یہ تحفظات آج ہونے والے پارلیمانی رہنمائوں کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کئے جائیں گے ،پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ جیٹ بلیک ٹیرارسٹ کی تشریح اور اینٹی ٹیرر ایکٹ پر تحفظات برقرار رہیں ،حکومت اس قانون کو دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کرنا چاہتی ہے ، پی ٹی آئی ،پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جب تک حکومت نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتی حمایت نہیں کریں گے ،جے یوآئی (ف) کی رہنما نعیمہ کشور نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں ڈیڑھ سال کی توسیع دینے کی تجویز دی ہے ،جے یوآئی (ف) فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے نئے آئینی مسودے کی حمایت کرتی ہے اگر پرانے آئینی ڈرافٹ کے تحت توسیع دی گئی تو حمایت نہیں کریں گے۔ وہ بدھ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر قائم کی گئی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہیں تھیں۔آئینی ترمیم کے مسودے کا جائزہ لینے کیلئے قائم کی گئی ذیلی کمیٹی کا اجلاس وزیر قانون زاہد حامد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری، پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شریں مزاری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہنما نعیمہ کشور اور ایم کیو ایم کے رہنما ایس اے اقبال قادری نے شرکت کی۔
اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع سے متعلق مجوزہ آئینی مسودے پر غور کیا گیا۔پیپلزپارٹی کی رہنما شیریں مزاری اجلاس میں اپنا موقف دینے کے بعد اٹھ کر چلی گئیں۔انہوں نے کہا کہ نیا آئینی مسودہ پرانے ایکٹ سے بہت مختلف ہے اس پر ابھی مشاورت کی ضرورت ہے اس لئے ذیلی کمیٹی میں اس پر ابھی بات نہیں ہوسکتی۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے بھی نئے مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا۔دونوں جماعتوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا اورکہا کہ اکیسویں ترمیم کے مسودے کو بعض شرائط کے ساتھ نافذ کیا جائے ،نیشنل سیکیورٹی کمیٹی فوری طور پر قائم کی جائے۔دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مذہبی دہشتگردی کی شق ختم ہونے پر نئے آئینی مسودے کی حمایت کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ اگر اکیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کو بحال رکھا گیا تو اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ دو جماعتوں نے اتفاق جبکہ دو جماعتوں نے آئینی مسودے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پرانی ترمیم کی حمایت کی ہے۔
آج جمعرات کو مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں ان جماعتوں کے تحفظات سامنے رکھے جائیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر پارٹی قیادت سے مشاورت کی ، ہمیں موجودہ مسودے پر پانچ سے چھ تحفظات ہیں ، اس بل میں دہشت گردی کی تشریح نہیں کی گئی ،جیٹ بلیک ٹیرارسٹ کی شق ختم کردی گئی ہے، اس بل کے تحت حکومت کسی شخص کو بھی دہشت گرد قرار دے کر فوجی عدالت بھیج سکتی ہے ،حکومت اس بل کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کی ضرورت ہے تاہم حکومت نے فوجی عدالتوں کے گزشتہ دو سالوں میں سول عدالتوں اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے اداروں میں اصلاحات لانے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا۔اس دفعہ کیا گارنٹی ہے کہ اصلاحات لائی جائیں گی جب تک حکومت اس حوالے سے ٹائم لائن اور بلیو پرنٹ نہیں دے گی حمایت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ،پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، اینٹی ٹیرر ایکٹ پہلے سے موجود ہے اس پر حکومت ایک اور ایکٹ بنانا چاہتی ہے ، ایک وقت میں دو قوانین نہیں ہوسکتے ،ہمارا مطالبہ ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے انسداد دہشت گردی قانون کو بھی بحال رکھا جائے جب تک حکومت نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتی حمایت نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جب تک قوانین درست نہیں ہوں گے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ، دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے
جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں اپنے تحفظات سامنے رکھیں گے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہنما نعیمہ کشور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں ڈیڑھ سال کی توسیع دینے کی تجویز دی ہے جبکہ حکومتی مسودے میں تین سال مدت بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے اس معاملے پر مزید بات ہوسکتی ہے ،جے یوآئی (ف) فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے نئے آئینی مسودے کی حمایت کرتی ہے اگر پرانے آئینی ڈرافٹ کے تحت توسیع دی گئی تو حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف تھا کہ حکومت مذہب اور فرقوں کو نکال کر دہشت گرد کو دہشت گرد قرار دے کر کاروائی کرے اس پر پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی متفق نہیں ہیں۔