بوسٹن(آئی این پی)چین پاکستان اقتصادی راہداری بارے پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ کشمیر کے تصفیے کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا، بھارت کشمیر کوکشمیر ی عوام کے حقوق کے انکار پر مبنی ایک سیاسی تنازعے کے طور پرتسلیم کرے اور تینوں فریقوں کو مانے، ،بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر بیک چینل مذاکرات شروع کرنے چاہیں،بھارت پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کی مخالفت چھوڑ کر کانفرنس کی نئی تاریخوں پر اتفاق کرے او ر وزیراعظم نریندر مودی کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان کا دورہ کریں
مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی حلقہ بھارت کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا،بھارت فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بند کرے،بھارتی حکومت یشونت سنہا کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے حقائق کو تسلیم کرے ۔وہ امریکہ کی بڑی یونیورسٹی ہاورڈ میں کشمیر کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔کانفرنس میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر سے ویڈیو کے ذریعے خطاب کیا جبکہ بھارت کی نمائندگی ایئر مارشل (ر) کپل کاک اور سابق وزیراعظم مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ کررہے تھے۔بحث سالانہ انڈیا کانفرنس 2017 کا حصہ تھی ۔15سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی پاکستانی کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما کے ہمراہ کشمیر بات کرنے کی دعوت دی گئی ۔اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ کشمیر کے تصفیے کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا، جولائی 2016میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والی اصل رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں نے جن کی پیلٹ گن کے ذریعے آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی نے آزادی کے حق میں ووٹ دے دیا ہے ۔انھوں نے کہاکہ کشمیر دنیا میں واحدتنازعہ ہے جس کا بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔ اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے پرانی سیز فائر لائن ہے ۔مشاہد حسین نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کسی سرزمین کے بارے میں نہیں ہے ۔ لیکن پاکستان کیلئے مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے بارے میں ہے ،کشمیر کے عوام اور کشمیر کی طرف بڑھنے والے راستے کے بارے میں ہے ۔
مشاہد حسین سید نے مسئلے کے حوالے سے تعطل کو ختم کرنے کیلئے پانچ نکات پیش کیے ۔1۔ بھارت کشمیر کوکشمیر کے عوام کے حقوق کے انکار پر مبنی ایک سیاسی تنازعے کے طور پر قبول کرے اور یہ بھی تسلیم کرے کہ تنازعے کے تین کشمیری ،پاکستان اور بھارت فریق ہیں۔2۔جنوری 2017 میں جاری ہونے والی سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کشمیریوں میں بھارت کا خوف ختم ہوگیا ہے اور کشمیری چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں جسے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے دکھ درد کو ختم کرنے کیلئے ایک اچھے نقطہ آغاز کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے ۔3۔بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر مقرر کیے گئے متعلقہ نمائندوں کے ذریعے بیک چینل مذاکرات شروع کرنے چاہیں۔4۔بھارت کی جانب سے فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنا ضروری ہے ۔5۔بھارت پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کی مخالفت کرنا چھوڑدے، کانفرنس کی نئی تاریخوں پر اتفاق کرے او ر وزیراعظم نریندر مودی سارک کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان کا دورہ کریں۔مشاہد حسین نے کہاکہ موجودہ عالمی اور علاقائی منظرنامہ ایشیا کی قسمت کا فیصلہ ایشیا کے ہاتھوں کرنے کا ایک سنہری موقع پیش کرتا ہے ، توانائی اور معیشت،بندرگاہوں اور پائپ لائنز ،سڑکوں اور ریلوے کے ذریعے خطے کے ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے جس سے علاقائیت کو فروغ ملے گا خاص طور پر سی پیک کے ذریعے ایسا ممکن ہے جہاں پاکستان علاقائی روابط اور کوریڈروز کا ایک محور ہے ۔
مشاہد حسین سید نے جنوبی ایشیا کے خاموش عروج کے حوالے سے مورگن اسٹینلے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بال اب بھارت کے کورٹ میں ہے آیاکہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ذریعے جنوبی ایشیا کے عروج میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے یا کشمیر کے تصفیے کو مسدود کرکے جنوبی ایشیاکے عروج میں میں رکاوٹ بننا چاہتا ہے ۔مشاہد حسین سید نے کہاکہ پاکستان میں کوئی بھی حلقہ بھارت کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا ۔