فرعون حضرت مشاطہ کو شہید کروا کر جب گھر پہنچا تو اپنی بیوی حضرت آسیہؓ سے کہنے لگا‘ آج یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو عبرتناک سزا دی ہے۔ اس کی بیوی نے کہا‘ تیرا ناس ہو تو نے ایک معصوم بچی کی جان بھی لی اور ایک بے گناہ عورت کا بھی قتل ناحق کیا۔ فرعون نے کہا میں نے اس کو اس لئے عبرتناک سزا دی کہ وہ مجھے خدا نہیں مانتی تھی۔ یہ سن کر حضرت آسیہؓ نے کہا کہ خدا تو میں بھی تجھے نہیں مانتی‘
بلکہ تو ایک عام انسانہے۔ جب فرعون نے یہ سنا تو حیران رہ گیا کیونکہ اسے حضرت آسیہؓ سے بڑی محبت تھی۔ حضرت آسیہؓ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا حسن و جمال عطا کیا تھا۔ اس وجہ سے وہ اس سے بڑی محبت کرتا تھا۔ چنانچہ فرعون کہنے لگا تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟ وہ کہنے لگیں میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں کہ تو جھوٹا ہے‘ پروردگار تو وہی ہے جس کاپیغام لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔ فرعون نے یہ بات تو اسے بہت غصہ آیا۔ لہٰذا کہنے لگا کہ میں تمہارا بھی وہی حشر کراؤں گا جو میں نے مشاطہ کا کروایا ہے۔ وہ کہنے لگیں تو جو چاہتا ہے کر لے میرے ساتھ میرا پروردگار ہے۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنے پروردگار کو نہیں چھوڑ سکتی۔ البتہ تیری ہر چیز کو لات مار سکتی ہوں۔ جب اس نے یہ باتیں سنیں تو پھر دربار میں آیا۔ اب پھر اس نے لوگوں کو بلوا لیا اور کہنے لگا دیکھو! یہ کتنی بڑی سازش ہوگئی ہے۔ موسی(علیہ السلام) نے بھی میری بیوی کو بھی بہکا لیا ہے۔ آج میں اس عورت کو یا تو مار ڈالوں گا یا پھر وہ اپنی بات سے ہٹ جائے گی۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو گرفتار کرروا کر دربار میں بلوا یا‘ وہ تو ملکہ تھی اور اس کے اشارے پر نوکر چاکر بھاگ بھاگ کر کام کرتے تھے۔ لوگ احترام کی وجہ سے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ آج وہ فرعون کے دربار میں ملزمہ بن کر کھڑی ہے۔
فرعون نے اسے کہا کہ تو اتنے عالیشان محل میں رہتی ہے اتنی نعمتوں میں پلی ہے میں تجھے اپنی محبوب بنائے ہوئے ہوں۔ تجھے اب محل کی ناز و نعمت والی زندگی سے محروم ہونا پڑے گا۔ بہتر ہے تو اب بھی باز آ جا اور مجھے ’الہ‘‘مان لے۔ وہ کہنے لگی‘ اب میں نے ایمان قبول کر لیا ہے لہٰذا میں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ چنانچہ فرعون نے فیصلہ کر لیا کہ میں اسے بھی سزا دوں گا۔ فرعون نے سب سے پہلے سزا کے طور پر اسے رسوا کرنے کافیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ سب سے پہلے اس عورت کے جسم سے لباس اتار دیا جائے۔ فرعون نے اس کے جسم سے لباس اتروا دیا۔ وہ ڈٹی رہی۔ فرعون نے کہا اچھا! اگر اب بھی نہیں مانتی تو میں تجھے اور طرح کا عذاب دوں گا۔ چنانچہ فرعون نے کہا کہ اس کا منہ میرے محل کی طرف کر کے لٹا دو تاکہ آخری وقت بھی نگاہیں اس کی میرے محل پر لگی رہیں اور اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میں ان نعمتوں کو ٹھکرا کر ذلیل و خوار ہو رہی ہوں۔ لہٰذا اسے فرعون کے حکم کے مطابق لٹا دیا گیا۔ اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں لوہے کی کیلیں گاڑ دی گئیں تاکہ ہل نہ سکے۔ اس کے بعد فرعون نے لوگوں کو بلا کر کہا کہ اس کے جسم سے کھال جدا کرنا شروع کر دو۔ اس طرح اس کے جسم سے کھال اتار دی گئی۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ وہ ابھی تک زندہ تھی مگر جسم زخم زخم بن چکا تھا۔
فرعون کا دل اب تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ وہ کہنے لگا‘ مرچیں لاؤ اور اس کے پورے جسم پر چھڑک دو۔ حضرت آسیہؓ کے جسم پر مرچیں ڈال دی گئیں تو وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگ گئیں۔ اس تڑپنے کی حالت میں انہوں نے اللہ رب العزت کے حضور ایک دعا مانگی کہ اے اللہ! فرعون کا محل سامنے وہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں اس محل سے نکال دیا ہے آج کے بعدتم اس محل میں جا نہیں سکو گی۔ اس لئے اے پروردگار! مجھے اس محل کے بدلے میں جنت میں آپ کے پاس گھر چاہئے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات عطا فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حال یمں ان کو شہادت کے مرتبہ پر فائز فرما دیا۔ سبحان اللہ