خطابت کے میدان میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے تہلکہ مچا دیا‘ ان کی تقریر سن کر ہندو بھی مسلمان ہو جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذہانت ایسی دی تھی کہ حاضر جواب بہت تھے ایک دفعہ ایک صاحب کہنے لگے حضرت! آپ تو انگریز کو (show) تماشہ دکھاتے ہیں فرمایا بھئی! میں انگریز کو show نہیں دکھاتا میں تو انگریز کو shoe (جوتا) دکھاتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک صاحب حضرت بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے ملے اور کہنے لگے حضرت! زندگی کیسی گزری!
فرمایا بھئی اپنی آدھی ریل میں گزری اور آدھی جیل میں گزری۔ ایک دفعہ سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی تو ابوالاعلی مودودی فرمانے لگے‘ شاہ صاحب! آپ کی جماعت کو تقریر کا بڑا ہیضہ ہے‘ شاہ جی نے جواب دیا جیسے آپ کی جماعت کو تحریر کاہیضہ ہے۔ ایک جلسہ گاہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا مجمع تھا شاہ جی نے چاہا کہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں سے کچھ پوچھوں‘ چنانچہ حساب کا چھوٹا سا سوال پوچھا تو ہندوؤں نے جواب دیا مگر مسلمان جواب نہ دے سکے اب مسلمانوں کو شرمندگی سے بچانے کیلئے شاہ جی فرمانے لگے‘ واہ مسلمانوں! تم یہاں بھی بے حساب ہو جبکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آگے بھی بے حساب والا معاملہ فرمائے گا۔ ماشاء اللہ ایک شخص کہنے لگا‘ شاہ جی کیا مردے سنتے ہیں یا نہیں؟ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا بھئی! ہماری تو زندہ بھی نہیں سنتے ہم مردوں کی کیا بات کریں۔ ایک دفعہ علی گڑھ پہنچے‘ بعض طلباء نے پروگرام بنایا ہوا تھا کہ تقریر نہیں کرنے دینی‘ شاہ جی رحمتہ اللہ سٹیج پر آئے تو طلباء اٹھ کر کھڑے ہوئے اور شور مچانا شروع کر دیا کہ بیان نہیں کرنے دینا‘ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا بھئی ایک بات سنو‘ میں اتنا سفر کر کے آیا ہوں اگر اجازت ہو تو میں ایک رکوع پڑھ لوں اب طلباء میں اختلاف ہو گیا‘ کچھ کہنے لگے‘ جی تلاوت میں کیا حرج ہے اور کچھ کہنے لگے یہ بھی نہیں سننی‘ حتیٰ کہ تلاوت کی تائید کرنے والے غالب آ گئے‘ انہوں نے کہا جی آپ رکوع سنا دیں۔ شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ نے رکوع پڑھا‘ پھر فرمایا عزیز طالب علمو! اگر اجازت ہو تو اس کا ترجمہ بھی پیش کروں۔ طلباء پر تلاوت کاایسا اثر ہوا کہ سب خاموش رہے چنانچہ شاہ جی نے تقریباً دو گھنٹے تقریر فرمائی۔