اسلام آباد(آئی این پی )حکومتی اتحادی جماعتوں نے حکومت کو خبردارکیا ہے کہ کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی سمری شامل کی گئی تو اچھا نہیں ہوگا ،باجوڑ سے وزیرستان تک قبائل سڑکوں پر نکل آئیں گے ،قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لئے آخری حد تک جائیں گے کسی کا باپ قبائل پر اپنی مرضی کو مسلط نہیں کرسکتا ،قبائلی عوام کو حکمرانوں سے امریکہ اور برطانیہ سے ملنے والے خیرات نہیں چاہیے بس فاٹا کی معدنیات اور دیگر وسائل پر قبائلیوں کے حق ملکت کو تسلیم کرلیا جائے ،
فاٹا کے عوام کے رائے کے برعکس صدر پاکستان ، حکومت یا کسی ریاستی اداروں نے فاٹا کے عوام پر فیصلہ مسلط کیا تو یہ جرگہ فاٹا کے عوام قطاً تسلیم نہیں کریں گے ۔فاٹا کیلئے اپنا گورنر فاٹا ہی سے مقرر کیا جائے وفاق تباہ حال فاٹا کے بحالی و ترقی کے لئے 2 سے 3 ہزار اراب پر مشتمل پیکیج کا اعلان کیا جائے ۔ پیر کو ان خیالات کا اظہار پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے رہنما سینیٹر مولانا عطا ء الرحمان نے اسلام آباد میں خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ سے خطاب اور مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ۔جرگے کے مہمان خصوصی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے ہم کسی ایک انسان سے بھی زبان، رنگ اور مذہیب کی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کو یہ غلط پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ پشتون دہشتگرد ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔ پشتون تاریخ میں بنیاد پرست اور فرقہ پرست نہیں رہا ہے۔ چین اور دنیا جہان کے سیاح اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ پشتونوں کی وطن میں کھانا اور بستر مفت ملتے ہیں۔ ہم دنیا سے کوئی خیرات نہیں مانگتے ہیں، لیکن میرے اباواجداد کی زمین میں جو وسائل ہیں اُن پر سب سے پہلے میری حق حکمیت تسلیم کی جانی چاہے۔
انھوں نے کہا کہ خطے میں ایک بار پھر خطرات اُمنڈ رہے ہیں۔ ہم نے بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ مہذہب دنیا میں پرندے اور دیگر حیوان بھی حساب سے مارے جاتے ہیں، لیکن میرے وطن میں مرنے والوں جوانوں اور مشران کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ہمارے جوان بچے مارے، اور فاٹا کے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا، اب وہ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ ہم اُن کو زندہ باد کہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اکسیویں صدی ہے۔ جمہوری دور ہے۔ عوام باشعور ہے۔ انھوں نے کہا کہ اصلاحات کی تین شکلیں ہوسکتی ہیں۔ فاٹا کو کونسل کی بنیادوں پر جمہوری دیا جائے۔ دوسرا طریقہ انضمام ہے جسے فاٹا کے عمائدین نے مستردکردیا۔ جبکہ تیسری شکل الگ صوبہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٖفاٹا کیلئے جو بھی فیصلہ کرنا ہوگا، وہ صرف اور صرف فاٹا کی عوام کی مرضی اور رائے سے منظور کیا جانا چاہے۔انھوں نے کہا کہ فاٹا کے لوگ ہر چیز بشمول اٹا و دیگر خوراکی مواد انتظامیہ کی پرمٹ سے اپنے علاقوں کو لے جاتے ہیں۔ پھر یہ دنیا جہاں کے دہشتگرد فاٹا میں کس طرح اور کن کی مرضی سے ائے۔ خدا پنجابیوں، بلوچوں، سندھیوں کی زمیں کو سونا چاندی میں تبدیل کریں، لیکن میری وطن اور وسائل پر میری اختیارات ہونے چاہے۔انھوں نے کہا کہ جب فاٹا کی عوام دشمن کیساتھ لڑانا ہو، تو پھر وہ محب وطن ہے۔ لیکن جب یہ حقوق کی بات کرتے ہیں پھر اپ انھیں دہشتگرد کہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان فوجی افسر کرن امام برملا ٹی وی پر اکر اعلان کرتا ہے کہ ہم نے ہزاروں لوگوں کو روس کے خلاف جہادی ٹریننگ دی۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ پاکستان کے خلاف مسلح جنگ کرتے ہیں، پاکستانی احکام انھیں نوکریاں و دیگر مراعات دیتے ہیں جبکہ فاٹا کے لوگوں سے جیننے کا حق چھینا جارہا ہے۔فاٹا اصلاحات اور قبائلی علاقوں پر وہاں کے عوام کی حق حکمیت تسلیم کرنے کے عنوان سے اسلام اباد میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام ایک قبائلی جرگہ منعقد کیا گیا تھا۔ سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ کسی کا باپ فاٹا کے عوام پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا مولانا فضل الرحمان نے قطاً حکومت کی فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے پر مزاکرات نہیں کئے ہیں اصلاحات کو قبائلی عوام کی رائے قرارنہیں دیا جاسکتا فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے رائے کے سلسلے میں ہم حکومت نہیں بلکہ قبائل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کے لئے ہم آخری حد تک جائیں گے ۔خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ اسلام اباد منعقدہ ۳۰ جنوری 2017 میں مشترکہ اعلامیہ منظور کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے ۔
خودمختار جمہوری فاٹا جرگہ حکومت پاکستان کے نام نہاد فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کے پہلے نکتے کے مندرجات جس کا اغاز کچھ یوں ہے کہ ” نومبر 2001 میں امریکہ کی جانب سے افغانستان پر حملہ کے بعد پاکستان کے زیر ا نتطام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ایک باغی علاقے کے طور پر پر ابھرا ہے۔ جو قومی و بین القوامی سلامتی کیلئے ایک خطرہ ہے۔ جس نے پاکستان کو کئی مسائل سے دو چار کردیا ہے۔ باغی عناصر نے فاٹا کو جنگجووں کو تربیت دینے اور بھرتی کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ اور ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا ہے وغیرہ وغیرہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ حکومتی فاٹا اصلاحات کمیٹی اپنے اس فاٹا دشمن رپورٹ میں اھتک امیز و شرانگیز الفاظ کے استعمال پر فاٹا کے غیور عوام سے غیر مشروط معافی مانگے۔ خود مختار جمہور ی فاٹا جرگہ حکومت پاکستان کی نام نہاد فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ 2016 کو مکمل رد کرتا ہے۔
یہ جرگہ واضح کرتا ہے کہ حکومت پاکستان ، ریاستی اداروں اور نام نہاد حکومتی اصلاحات کمیٹی کو برملا یہ اعلان کرنا ہوگا۔ کہ فاٹا کے مالک فاٹا کے عوام ہیں اور وہاں پرتمام حکومتی اقدام فاٹا کے عوام کی رائے کے ذریعے اٹھایا جائے گا۔جرگہ یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا میں اصلاحات اور فاٹا کے مستقبل کا تعین فاٹا کے عوام کے رائے کے ذریعے ہو۔ جرگہ یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ FCR کے کالے قوانین کو جلد از جلد منسوخ کئے جائیں۔ اور فاٹا کے عوام کو اپنے لئے جدید عصری تقاضوں کے مطابق ایسے قانون سازی کا موقع دیں کہ وہ انسانی حقوق و جمہوری اصولوں پر مبنی ہو۔یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا مین پائیدار امن عوام کی حمایت اور تعاون سے قائم کیا جائے۔جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کے ائی ڈی پیز کو جلد از جلد اپنے اپنے علاقوں مین بحال کیا جائے اور اُن کے جان و مال اور املاک کے نقصانات کا مکمل ازالہ کریں۔جرگہ یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کی تعمیر و ترقی کیلئے فاٹا کے نام پر بیرونی امداد کو فاٹا ہی پر خرچ کیا جائے۔ تباہ حال فاٹا کے بحالی و ترقی 2 سے 3 ہزار اراب پر مشتمل پیکیج دیا جائے اور فاٹا کوملنی والی بیرونی اور اندرونی پیکیج کو فاٹا کے منتخب نمائیندوں کی زیر نظارت منصوبہ بندی اور خرچ کریں۔
جرگہ مطالبہ کرا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں فاٹا کا کوٹہ بڑھایا جائے اور فاٹا کے طلباکو اندرون ملک اور بیرون ملک ہزاروں سکالرشپس دینے کا فوری بندوبست کیا جائے۔ جرگہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کیلئے اپنا گورنر فاٹا ہی سے مقرر کیا جائے۔ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہر ایجنسی میں ایک یونیورسٹی اور فاٹا کے سطح پر ایک وومن یونیورسٹی بنایا جائے ۔یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کیلئے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج قائم کریں۔ جرگہ پُرزور مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کو اپنا قومی تشخص دیا جائے اور اُن کا اپنا الیکشن کمشنر مقرر کر کے فاٹا کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بلدیاتی نظام قائم کیا جائے۔
جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ مین فاٹا کی خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں بھی دی جائیں۔جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ سی پیک میں فاٹا کو موٹرویز، ریلویز، صنعتی زون، انرجی پراجیکٹ، وکیشنل سنٹرز اور فائبر اپٹٹکس میں حصہ دیا جائے۔جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ فاٹا کی تمام ایجنسیوں کو مربوط بنانے کیلئے باجوڑ سے وانہ تک ایکسپریس وے تعمیر کیا جائے۔ جرگہ واضح کرتا ہے کہ فاٹا کے عوام کے رائے کے برعکس صدر پاکستان ، حکومت یا کسی ریاستی اداروں نے فاٹا کے عوام پر فیصلہ مسلط کیا تو یہ جرگہ فاٹا کے عوام کے حمایت و تعاون سے بھرپور احتجاج کرے گی۔