واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسرنے اس وقت کی امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ کے بارے میں خبردار کیاتھا، میڈیارپورٹس کے مطابق یہ باتیں بین الاقوامی انٹیلیجنس پر امریکی صدر کو مشاورت فراہم کرنے والے سی آئی اے کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982 میں امریکا پر اثر انداز ہونے والے عالمی
واقعات نامی رپورٹ میں کیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ” سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز ”ورلڈوائڈ رپورٹ“ میں جولائی 1981 کی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ کس طرح جرمن سائنسدانوں، اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے خفیہ طور پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی تھی۔مضمون میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ قذافی نے پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے 50 کروڑ ڈالر کراچی پہنچائے ۔مضمون کی شروعات میں ہی کہا گیا کہ صرف چند دن قبل پاکستانی جنرل ضیاء الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری رہا پاکستان کے مددگار فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے سائنسدان اور لیبیا کے حکمران قذافی تھے، جو تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو اس کام کے لیے فراہم کرتے رہے،مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ قذافی اور بھٹو نے اسلام آباد میں ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے مطابق لیبیاکے فراہم کردہ فنڈز سے پاکستان ایٹم بم تیار کرے گا، جبکہ بدلے میں لیبیا کو تیار شدہ ایٹمی ہتھیار ملیں گے۔