پشاور(آئی این پی )خیبر پختونخوا اسمبلی میں پولیس بل 2017ء کوکثرت رائے سے منظور کر لیاگیا، بل کے تحت تمام مالی وانتظامی اختیارات آئی جی پولیس کے پاس ہونگے ، بل کی اے این پی اور مسلم لیگ (ن)کی جانب سے مخالفت کی گئی۔وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کہاہے کہ بل کے تحت پولیس کو غلامی سے نکالاگیاہے ،پہلے پولیس کی سیاسی امور پرتبادلے کئے جاتے ہیں
اس بل کی منظوری سے پولیس کو مکمل طورپر آزادکیاگیاہے ، آئی جی پی کو تمام تبادلوں اور ان کی تعیناتیوں کااختیارحاصل ہوگا بھرتی کوٹہ کے بجائے این ٹی ایس یاکسی دوسرے طریقہ کار سے ہو گا۔منگل کو خیبرپختونخوااسمبلی میں صوبائی وزیرقانون امتیازشاہدقریشی نے پولیس بل2017ء کو پیش کیا جس کی کثرت رائے سے منظوری دی گئی ن لیگ کے ضیاء الرحمن اور اے این پی کے سردارحسین بابک اور جعفرشاہ نے بل کے بعض شقوں کی مخالفت کی بل پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کہاکہ عوام ہمیں نظام بنانے کیلئے ووٹ دیتے ہیں یہاں حکومت اور سیاست میں ڈرامے کئے جاتے ہیں پہلے پولیس کی سیاسی امور پرتبادلے کئے جاتے ہیں اس بل کی منظوری سے پولیس کو مکمل طورپر آزادکیاگیاہے انہوں نے کہاکہ پولیس کیخلاف شکایات ڈسٹرکٹ ،ڈویژنل اور صوبائی لیول پر سیفٹی کمیشن کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح پولیس کوشتربے محاربھی نہیں چھوڑاہے بلکہ ترمیم کے ذریعے اس بات کی منظوری دی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ خودبھی انکوائری کرسکتاہے
جمہوریت میں اختیارات کوایک جگہ پرنہیں بلکہ تقسیم کئے جاتے ہیں تمام اختیارات اپنے پاس نہیں رکھناچاہتاہے صوبائی حکومت نے جو نعرہ لگایاتھا اس پر عمل درآمد کررہی ہے اگرکسی کواس سے اختلاف ہوا تو اس میں ترامیم لائی جاسکتی ہیں۔بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر مولانالطف الرحمن نے کہاکہ پولیس بل میں بہت سارے مقامات پر سقم ہیں بھرتی اورخرچہ صوبائی حکومت برداشت کرتی ہے لیکن ترقی پر پولیس کے اختیارات وفاق کے پاس چلے جاتے ہیں اس بل سے صوبائی خودمختاری کو چیلنج کیاگیاہے آئی جی کے مکمل بااختیارہونے کیخلاف ہیں اور عوامی نمائندں کو اس کے اوپرنگرانی کرنی چاہئے ،ن لیگ کے سرداراورنگزیب نے کہاکہ عجلت میں بل پاس کرنے سے مشکلات آئینگی عجیب بات ہے کہ صوبائی خودمختاری کیلئے لڑنے کے بجائے صوبائی حکومت واپس اختیارات مرکزکودے رہی ہے اے این پی کے سرداربابک نے کہاکہ پولیس کو سروس سٹرکچر دینے کے بجائے فردواحدکوتمام اختیارات دئیے گئے ہیں اس بل کی منظوری سے وزیراعلیٰ خوداپنے اوپرعدم اعتماد کررہے ہیں
انہوں نے کہاکہ ایس ڈی ایس پی کو اپنے عہدے پر پہنچنے کیلئے پبلک سروس کمیشن کے چار امتحانات دینے کوہونگے اگرایک شخص کوتمام اختیارات دینے تھے توپھردوسرے محکمے کے سیکرٹریز کو بھی اختیارات دئیے جائیں۔انیسہ زیب طاہرخیلی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ہماراکام نگرانی ہے اور اس بل کے ذریعے نگرانی کایک موثر نظام قائم ہوگا پولیس کے اس نئے نظام کو آزماناچاہیئے
اگر اختلافات ہیں تو اس میں ترامیم لائی جاسکتی ہیں ۔پولیس بل2017کے مطابق آئی جی پی کو تمام تبادلوں اور ان کی تعیناتیوں کااختیارحاصل ہوگا بھرتی کوٹہ کے بجائے این ٹی ایس یاکسی دوسرے طریقہ کار سے ہوگا خیبرپختونخوامیں پولیس کیلئے قائم نو سکولوں کو اس نظام کے تحت قانونی حیثیت دی گئی ہے اسی طرح پولیس اسسنٹس لائن اور دیگر امور کوبھی قانونی حیثیت دی گئی ،
ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ،بعدازاں ڈویژنل اور صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیاجائے گا جس میں پولیس کیخلاف شکایات درج کی جاسکتی ہیں۔پبلک سیفٹی کمیشن میں ججز کے لیول تک افیسرزکورکنیت دی گئی ہے ۔