لاہور(آئی این پی) چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کر سچین قانون طلاق کو آئین سے متصادم قرار دینے کے لئے دائر درخواست پروکلاکے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔لاہور ہائیکورٹ میں مسیحی قانون طلاق کے خلاف الیاس بھٹی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل نے عدالت کوبا ئیبل کی آیت پڑھ کر سنائی اور کہا کہ الہامی قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔بنیادی حقوق کے نام پرالہامی قانون میں تبدیلی مذہبی اصولوں کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے بشپس کے ساتھ مل کر قانون میں موجود سقم دور کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں۔صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو کے علاوہ کیتھولک،پروٹسٹنٹ چرچ سمیت دیگر چرچ کے بشپس نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ بائیبل کی تعلیمات کے تحت مسیحی میاں بیوی کا رشتہ کسی صورت نہیں توڑا جا سکتا۔اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی میری گل نے عدالت کوآگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق کے نتیجے میں خواتین مذہب ترک کر کے ز ندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین میں مرد و عورت کی تخصیص کے بغیرعورتوں کوطلاق کے مساوی حقوق حاصل ہیں،مسیحی قانون طلاق واضح طور پر امتیازی قانون ہے۔چیف جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ عدالت مسیحی برادری بالخصوص خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہے ۔درخواست گزار کے وکیل شیراز ذکاکا کہنا تھا کہ مسیحی قانون طلاق بنیادی حقوق اور اخلاقیات کے عالمی قوانین سے متصادم ہے۔انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق کے تحت کوئی بھی عیسائی اس وقت تک اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے ثابت نہ کر دے۔انہوں نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق سے متصادم اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے