اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کو چیئرمین واپڈ انے آگاہ کیا ہے کہ ملک میں ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پانی سے پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن گزشتہ 70 سالوں سے صرف 7 ہزار میگا واٹ پانی سے بجلی پید اکرنا شرمناک ہے،منگلا ڈیم اپ ریزنگ میں کرپشن کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات کیلئے تمام دستاویزات نیب کو فراہم کر دی ہیں ‘ واپڈا کسی کو تحفظ فراہم نہیں کرے گا، کچھی کینال سے ڈیرہ بگٹی میں 55 ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا جائے گا، نیلم جہلم منصوبے پر کام دسمبر 2017ء تک مکمل ہو گا،منصوبے کی تکمیل میں طویل تاخیر اور لاگت میں بہت زیاد ہ اضافے سے بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا، کمیٹی نے میرپور میں منگلا ڈیم کے قریب رٹھوعہ ہریام پل میں تاخیر کی وجہ سے منصوبے کی لاگت ڈیڑھ ارب سے بڑھ کر 6ارب ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، کمیٹی نے منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنے کی وجہ سے لاگت میں اضافے کا نو ٹس لیتے ہو ئے ڈیزائن تبدیل کرنے کے فیصلے کے حوالے سے سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس کی تفصیلات طلب کر لیں ۔منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کا اجلاس کمیٹی چیئرمین عبدالمجید خان خانان خیل کی صدارت میں ہوا۔
اٹامک انرجی کمیشن کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چشمہ نیو کلیئر پاور پروجیکٹ کے یونٹ سی 3 اور سی 4 پر شیڈول کے مطابق پروگریس چل رہی ہے۔ منصوبے پر بین الاقوامی معیار پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ 70 ماہ کا وقت منصوبہ مکمل کرنے میں لگے گا۔ منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبے میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے حوالے سے معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ علم میں آیا ہے کہ ایک کنٹریکر نے کنٹریکٹ لے کر 4 ارب بڑھا کر دوسرے کو کنٹریکٹ دیا اور عدالت کے فیصلے کے بعد واپڈا کو اڑھائی کروڑ جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ نقصان بڑھ رہا ہے۔واپڈا نقصان روکنے کے لئے اقداما ت نہیں کر رہا ۔کمیٹی نے دس ما ہ قبل سفارشات دی تھی اور واپڈا نے عمل نہیں کیا۔ چیئرمین واپڈا میجر جنرل (ر) مزمل نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبہ میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے تمام دستاویزات نیب کے حوالے کر دئیے ہیں اور نیب معاملہ پر تحقیق کرے گا۔ پاکستان میں ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پانی سے پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور جس میں سے 60 ہزار میگا واٹ کی نشاندہی بھی کی جا چکی ہے۔
70 سال میں صرف 7 ہزار میگا واٹ بجلی پانی سے پیدا کرنا شرمناک ہے۔ بھاشا ڈیم کی فنانسنگ پر غیر ملکی ڈونرز نے 10 سال سے زیادہ الجھائے رکھا ۔ داسو ڈیم کی تعمیر میں ایک انچ زمین بھی ایکوائر نہیں کی تھی اور پانچ کنٹریکٹ سائن کئے گئے۔ فروری 2018ء میں نیلم ڈیم منصوبے سے پیداوار شروع ہو جائے گی۔ ڈیم پر کام دسمبر 2017ء تک مکمل ہو گا۔ کچھی کینال سے ڈیرہ بگٹی میں 55 ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا جائے گا۔ کمیٹی نے ارکان نے نیسپاک کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سیکرٹری اٹامک انرجی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم 28 دسمبر کو چشمہ پاور تھری کا افتتاح کریں گے۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے بعض منصوبوں پر کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ کینسر کے مرض کے علاج کیلئے ملک بھر میں 18 ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ کمیٹی نے مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کی تفصیلات طلب کر لیں۔
کمیٹی نے میرپور میں رٹھوعہ بریام پل میں تاخیر کی وجہ سے منصوبے کی لا گت میں اضافے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔ وزارت ترقی و منصوبہ بندی آزاد کشمیر کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ منصوبے میں شروع میں کیبل برج کا ڈیزائن منظو رکیا گیا تھا لیکن بعد میں سی ڈی ڈبلیو پی نے پل کو آر سی سی ڈیزائن تجوز کیا جو صحیح نہیں تھا کیوں کہ 560 میٹرکے حصہ میں پانی جمع تھا اور نرم تھا۔ منصوبہ پر 97 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ سی ڈی ڈبلیو پی نے سفارشات کو نظر انداز کر کے آر سی سی پل بنانے کی ہدایت کی جو ایک جبری فیصلہ تھا۔ منصوبے کے پی سی ون کی نظر ثانی کر کے ایکنک کو ریفرکر دیا ہے۔ پل کا پی سی ون 2006 میں منظور کیا گیا تھا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ منصوبے کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے منصوبہ بندی کے حکام نے کمیٹی میں اعتراف کیا کہ وزارت کی غلطی تھی کہ انہوں نے پی سی ون کو ٹھیک طرح سے چیک نہیں کیا۔ کمیٹی نے سی ڈی ڈبلیو پی کی میٹنگ جس میں اس کے ڈیزائن تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی اور جن ارکان نے ڈیزائن کے حق میں فیصلہ کیا تھا تفصیلات طلب کر لیں۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ منصوبے کی فیکٹ فا ئنڈنگ انکوائیری میں یہ با ت سامنے آئی کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدلی کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔۔۔