کراچی (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان ایئرلائن کے تمام طیاروں کو وقتی طور پر گراؤنڈ کرکے بین الاقوامی مستند ادارے سے ان کی کلیئرنس حاصل کی جائے اور اس بات کی بھی تحقیق کی جائے کہ حالیہ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ 2014ء میں حادثے کے بعد گراؤنڈ ہوا اور اسے دوبارہ فعال کرکے وزیراعظم کے سفری استعمال کے لیے اسی طیارے کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ ملوث عناصر کا کڑا احتساب ضروری ہے۔ سندھ میں اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر قبول اسلام پر پابندی کے بل کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ تمام مذہبی قوتیں اس پر متفق اور منظم ہیں۔ جنید جمشید اس قوم کا عظیم سرمایہ تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں تبدیلی لاکر نہ صرف اپنی اخروی زندگی کامیاب بنائی بلکہ اور بہت سوں کے لیے اصلاح کا باعث بھی بنے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو طیارہ حادثے میں شہید ہونے والے معروف ثناء خواں جنید جمشید کے گھر پر ان کے بھائی ہمایوں جمشید، بیٹوں، سسر اور دیگر اہل خانہ سے تعزیت کے موقع پر مختصر بیان بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے علامہ راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، مولانا عبدالکریم عابد، ڈاکٹر نصیرالدین سواتی اور دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن مختصر تعزیتی بیان میں کہا کہ جنید جمشید اس قوم کا عظیم سرمایہ تھے اور انہوں نے اپنی زندگی ایک ایسے موقع پر بدلی جب ان کا عروج تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نہ صرف اپنی اخروی زندگی کا سامان بنایا بلکہ اور بہت سوں کے لیے اصلاح کا سبب بھی بنے اور یہی وجہ ہے کہ آج قوم کا ہر فرد ان کے لیے خیر کا جذبہ رکھتا ہے اور اس آزمائش کے موقع پر ان کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آزمائش پر صبر اور آسائش پر شکر مومن کی شان ہے۔ بعدازاں انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طیارہ حادثے میں 47 افراد شہید ہوئے، وہ سب ہمارے لیے محترم ہیں اور اس حادثے پر پوری قوم لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حادثے کا کڑا احتساب ضروری ہے جو بھی اس میں ملوث ہے ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تشویش ناک بات ہے کہ 2014ء میں یہی طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور ایک سال تک گراؤنڈ رہا، بعدازاں اس کو فعال کردیا گیا اور چترال سمیت دیگر علاقوں کے سفر کے لیے وزیراعظم کے لیے اسی طیارے کا انتخاب کیا گیا۔ اس کی تحقیقات اور تمام ذمہ داروں کا کڑا احتساب ضروری ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی ایئرلائن کے تمام طیاروں کو گراؤنڈ کرکے مستند بین الاقوامی ادارے سے اس کی کلیئرنس حاصل کی جائے کیونکہ آج کوئی بھی شخص ملکی ایئرلائن پر سفر کرتا ہے تو وہ ڈر اور خوف میں مبتلا رہتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اے ٹی آر طیارے بھارت، بنگلادیش اور دیگر ممالک میں محفوظ تصور کیے جاتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ یہی طیارے ہمارے ہاں سیکورٹی رسک بن جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سندھ میں تحفظ اقلیتی بل کے نام پر عملاً قبول اسلام پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہماری جماعت اور دیگر تمام مکاتب فکر کی مذہبی قیادت اس پر متفق ہے کہ یہ بل کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ باعث لوگ زبردستی قبول اسلام کی بات کرتے ہیں جو غلط ہے۔ اسلام کسی کو بھی کسی بھی عمر میں زبردستی مسلمان بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں اس وقت ایسے لوگوں کی حکومت ہے جن کے ناموں کا حصہ خلیفہ چہارم حضرت علی کے نام سے منسوب ہے اور میں انہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور امت مسلمہ کو اس بات پر فخر ہے کہ نابالغوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ دریں اثناء جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن منگل کو کراچی میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کا دورہ کیا جہاں پر شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان، شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر اور دیگر علماء سے ملاقاتیں کیں اور مختلف امور پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔