اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور نے فیڈرل کنسولی ڈیٹڈ فنڈ کیلئے کوئی ایکٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی اور آزادکشمیر میں ڈیم کی تعمیر میں مصروف کورین کمپنی سے ایف بی آر افسران کی جانب سے ریفنڈز کی ادائیگی پر رشوت طلب کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی ،
چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ پاکستا ن میں پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ایک طرف ہم سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں،دوسری طرف یہ حال ہے، سرمایہ کار کیسے آئیں گے،سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے ایف بی آر اہلکاروں نے رشوت کے باقاعدہ ریٹس مقرر کر رکھے ہیں ،اہلکار رشوت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں، اتنا ظلم تو بھارت کشمیریوں پر نہیں کرتا جتنا عوام پر ٹیکس والے کرتے ہیں، کمیٹی نے سٹیٹ بنک حکام کو برطانوی نژاد سرمایہ کار اور نجی بینک میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا 26سالہ پرانا معاملہ بھی جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و اقتصادی امور کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔جس میں ممبران کمیٹی سینیٹر محسن خان لغاری،سینیٹر نسرین جلیل ،سینیٹر کامل علی آغا،سینیٹر مشاہد اللہ خان،سینیٹر عثمان سیف اللہ خان اور سینیٹر محسن عزیز سمیت سیکرٹری وزارت خزانہ ،سیکرٹری پانی و بجلی ،ایف بی آر اور سٹیٹ بنک کے حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے حوالے سے قانون سازی نہ ہونے ،ایچ بی ایف سی کے حوالے سے شکایات رپورٹ اور دیگر معاملات عدالتوں کی طرف سے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو بھجوائے گئے کیسز،آزادجموں و کشمیر میں ڈیم کی تعمیر کرنے والی کورین کمپنی سے ایف بی آر اہلکاروں کی جانب سے رشوت طلب کیے جانے سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ قومی خزانے کو استعمال کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون ہی موجود نہیں ہے جس پر وزات خزانہ حکام نے بتایا کہ کنسولی ڈیٹڈ فنڈ کو استعمال کرنے کے حوالے آرڈینینس موجود ہے،2001 کے آرڈینینس کے مطابق پری آڈٹ کے بعد کنسولی ڈیٹڈ فنڈ سے ادائیگیاں کی جا سکتی ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ صدارتی حکم پر جو عارضی نظام قائم کیا گیا تھا وہ اس وقت کیلئے تھا۔چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ تو پھر 348 ارب روپے گردشی قرضوں کی مد میں بغیر آڈٹ کے کیسے ادا کر دیے گئے جس پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ مالیاتی امور اب تک 1935 کے قانون کے تحت ہی چلائے جاتے رہے ہیں،1973کے آئین میں بھی اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی گئی۔وزارت خزانہ کام کر رہی ہے،دسمبرکے آخر تک مالیاتی امور سے متعلقہ تمام امور کو یکجا اور اپ ڈیٹ کر کے شائع کر دیں گے ۔سینیٹر محسن لغاری نے کہاکہ پیسوں کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے،پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کرنی چاہیے۔جس پر وزارت خزانہ حکام نے کہاکہ ہمارے سسٹم میں کوئی خلاء نہیں پھر بھی آپ قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں،جو قدغن ہم پر لگتی ہیں وہی قانون صوبوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ یہ معاملہ پہلی دفعہ اٹھایا گیا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،یہ کمیٹی ،پارلیمنٹ اورحکومت کیلئے بھی بہتر ہوگا۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ پیسوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی ضروری ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔کمیٹی ارکان نے تجویز دی کے مالیاتی امور کو چلانے کیلئے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی ہونی چاہیے جس پر کمیٹی نے کنسولی ڈیٹڈ فنڈ کیلئے قانون سازی کیلئے ہدایت کردی۔رفاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینسز کو بیچنے کے حوالے سے معاملہ پر ایف بی آر حکام نے آگاہ کیا ایدھی فاؤنڈیشن اپنی سات سالہ پرانی ڈیوٹی فری ایمبولینسز بیچ سکتے ہیں،فیصل ایدھی کو بھی اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے،اس معاملے کو حل سمجھا جائے۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ اس معاملے پر ایدھی والوں سے رابطے میں رہیں تاکہ دوبارہ میڈیا پر بات نہ آئے۔
ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے امورپر بحث کے دوران کامل علی آغا نے کہاکہ ایچ بی ایف سی کے اہلکاروں کے عتاب کی شکار یہ بیوائیں اور انکے بچے ہوتے ہیں ،پارہا یہ کمیٹی بیواؤں کے قرضے معاف کرنیکی سفارش کر چکی ہے لیکن اس پر عملدرامد نہیں ہوتا۔ماہر امور ٹیکس اور بورڈ ممبر ایچ بی ایف سی شبیر زیدی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بیس سال سے ایچ بی ایف سی میں حکومت کی جانب سے کوئی فنانسنگ نہیں کی گئی جس کی وجہ اے ادارہ تباہ ہو گیا ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ ایچ بی ایف سی کی بحالی کیلئے ٹیکس فری بانڈکے اجراء کیا جائے،ادارے کی بحالی کیلئے حکومتی فنانسنگ بھی اشدضروری ہے۔ایم ڈی ایچ بی ایف سی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بورڈ کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس میں پانچ سالہ پلان دیا،ٹیکس فری بانڈز کے اجراء کیلئے تجویز ایف بی آر کو دی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ایف بی آر ٹیکس رعایت کی کسی تجویز کو زیر غور نہیں لاتا جس پر ممبر ایف بی آر رحمت اللہ وزیر نے کہا کہ ایف بی آر نے ٹیکس چھوٹ سے متعلق تمام مراعات ختم کر دی ہیں،لیکن عوامی مفاد کے پیش نظر ایسی چھوٹ دینے کیلیے غور کیا جا سکتا ہے۔وزارت خزانہ حکام نے کہا کہ فی الحال ایچ بی ایف سی کیلئے کسی بھی حکومتی فنانسنگ کی تجویز زیر غور نہیں۔چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ حکومت ابھی تک ایچ بی ایف سی بحالی کیلئے واضح نہیں ہے۔وزارت خزانہ حکام نے کہاکہ جب سے یہ ادارہ کارپوریشن سے کمپنی بنا ہے تو اس کی بحالی کی ساری ذمہ داری خود انکی ہے۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ ایک مکمل کوشش کر لیں نہیں تو فاتحہ پڑھ لیں۔ایم ڈی ایچ بی ایف سی نے کہا کہ ایچ بی ایف سی کے جاری اخراجات 3 ارب ہیں،ماضی میں 50 ہزار قرضے سالانہ دیے جاتے تھے،اب صرف 2 ہزار افراد ہی ہاؤس بلڈنگ فنانس کیلیے قرضہ دیا جا رہا ہے۔
کمیٹی میں آزادکشمیر میں کشمیر میں ڈیم کی تعمیر میں مصروف کورین کمپنی سے ایف بی آر افسران کی جانب سے ریفنڈز کی ادائیگی پر پیسے طلب کیے جانے کا انکشاف ہوا ۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے ایف بی آر اہلکاروں نے رشوت کے باقاعدہ ریٹس مقرر کر رکھے ہیں ،اہلکار رشوت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ پاکستا ن میں پیسے کے بغیر کام نہیں ہوتا،ایک طرف ہم سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں،دوسری طرف یہ حال ہے سرمایہ کار کیسے آئیں گے۔چیرمین کمیٹی نے حکام سے ریفنڈز کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اتنا ظلم تو بھارت کشمیریوں پر نہیں کرتا جتنا عوام پر ٹیکس والے کرتے ہیں۔ایف بی آر حکام نے کہا کہ جن 2افسران کا ذکر کیا جارہا ہے ان میں سے ایک ایف بی آر کا ہے دوسرا آزادکشمیر کونسل کا ،کورین کمپنی ہمیں تحریری درخواست دے تو کارروائی کریں گے۔جس پر چیئرمین نے کہاکہ میرے پاس تحریری درخواست آئی ہے میں آپ کو بھجوا دوں گا یہ معاملہ کمیٹی میں بھی آچکا ہے،اس کا بھی نوٹس لے کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ برطانوی نزاد سرمایہ کار نجم قریشی کے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا 26سالہ پرانا کیس اب تک حل نہیں کیاجاسکا۔نجم قریشی کا کہنا تھا کہ 26سال پہلے پاکستان کی حکومتیں سرمایہ کاری کی دعوت دیتی تھیں،میں نے سرمایہ کاری کی لیکن مجھے رقم واپس نہیں کی گئی،عدالتوں میں بھی کیس لڑا،بڑے سے بڑا وکیل کیا لیکن نجی بنک میں کی گئی سرمایہ کاری کے نا پیسے ملے نا سود،ایسا کریں گے تو کون پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آئیگا،سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جارہا،دنیا کی جتنی بھی بڑی رقم دے دی جائے میرے 26سالوں کا متبادل نہیں ہوسکتی۔جس پر سٹیٹ بنک حکام کا کہنا تھا کہ نجی بنک اورسرمایہ کار کے بیچ سود کے معاملے پر جھگڑا ہوا تھا،سرمایہ کار کی بنیادی رقم اسے مل چکی ہے،کیس سپریم کورٹ میں ہے ہم کیا کرسکتے ہیں،
عدالت نے سود کی رقم جمع کرکے 80ہزار پاؤنڈ بنائی ہے جس پر درخواست گزار کو اعتراض ہے اوراس نے اسے چیلنج کر رکھا ہے،جس پر نجم قریشی کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں مقررہ مدت کے بعد سود کی رقم بھی اصل رقم میں شامل ہوجاتی ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ جینوئن کیس ہے ایک بندہ 26سال سے کیس لڑ رہا ہے اگر اس طرح ہی چلتا رہا تو اس کا پوتا بھی پیسے نہیں لے سکے گا،ایک بینکر کو اس کی شکل پسند نہیں تو کیا یہ ساری عمر پیسے نہیں لے سکتا،ایسا چلتا رہا تو پاکستان کا کیا بنے گا،اگر یہ شخص ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا سونا لے کر رکھ دیتا تو آج اربوں پتی ہوچکا ہوتا،منشاء صاحب کو کہہ دیں اگر وہ غریب آدمی ہیں تو ہم حصہ ڈال دیتے ہیں۔کامل علی آغا نے کہا کہ سٹیٹ بنک یہ معاملہ حل کرسکتا ہے جس پر مشاہد اللہ نے کہا کہ یہ اگلے شخص کے مرنے کا انتطار کرتے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے سٹیٹ بنک حکام کو سرمایہ کار اور نجی بنک کا معاملہ جلد سے جلد حل کرنے کی ہدایت کردی جبکہ توانائی شعبے کے سرکولر ڈیٹ کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹر محسن عزیز کی کنوینئر شپ میں ذیلی کمیٹی قائم کردی،جس میں سینیٹر کامل علی آغا اور سینیٹر مشاہد اللہ خان شامل ہوں گے،کمیٹی60دن کے اندر معاملات کاجائزہ لینے کے بعد رپورٹ پیش کرے گ