اسلام آباد(آئی این پی) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں وزارت پانی و بجلی حکام نے لوڈ شیڈنگ سے متعلق ٹرانسمیشن سسٹم کے بوجھ برداشت نہ کر سکنے کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ٹرانسمیشن سسٹم میں زیادہ پیدا شدہ بجلی کو اٹھانے کی سکت نہ ہونے کا تاثر غلط ہے،سسٹم کو چلائے رکھنے کیلئے 50 ایچ زیڈ کی فریکوئنسی بنائے رکھنے پڑتی ہے جس کیلئے جبری لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے،عید کے دنوں میں مہنگے پاور پلانٹس چلا کر صارفین کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے، یہ پلانٹس عام دنوں میں بند رکھے جاتے ہیں،ملک میں بجلی کی طلب میں ہر سال 14 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،
اس وقت بجلی کا شارٹ فال ساڑھے تین ہزار میگا واٹ تک کا ہے،جون 2017 تک 6 ہزار6 سو میگاواٹ اور دسمبر 2017 سے جون 2018 تک12ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آجائے گی ، جس سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائیگی جبکہ 2022 تک 30 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں لے آئیں گے،مختلف پالیسیوں کے تحت ملک میں اس وقت تک 40 آئی پی پیز پلانٹس کام کر رہے ہیں، سی پیک کے تحت زیادہ تر آئی پی پیز پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں۔بدھ کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوئنیر سردار عاشق گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ جس میں ممبران کمیٹی اور وزارت پانی و بجلی سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی حکام کی جانب سے بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے معاملات اور صارفین کو درپیش مسائل پر بریفنگ دی گئی۔ ایڈیشنل سیکریٹری پانی و بجلی عمر رسول نے آگاہ کیا کہ سیکریٹری پانی و بجلی کابینہ اجلاس میں شرکت کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکتے۔
کمیٹی نے سیکریٹری پانی و بجلی کے اجلاس میں نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ کنوئنیر سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ پالیسی سطح کے معاملات اور انتظامی ا مور پر انہی سے بات ہو سکتی ہے۔ وزارت پانی و بجلی حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سی پیک کے تحت زیادہ تر آئی پی پیز پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں،مختلف پالیسیوں کے تحت ملک میں اس وقت تک 40 آئی پی پیز پلانٹس کام کر رہے ہیں،معاہدے کے تحت آئی پی پیزکو غیر فعال رکھنے پر بھی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ حکام کی طرف سے بریفنگ میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے حکومتی مؤقف کی نفی کردی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ٹرانسمیشن سسٹم کی جانب سے زیادہ پیدا شدہ بجلی کو اٹھانے کی سکت نہ ہونے کا تاثر غلط ہے، ملک میں بجلی کی طلب 23 ہزار میگاواٹ تک ہے، گزشتہ موسم گرما میں 18 ہزار میگاواٹ بجلی مہیا کرتے رہے ہیں،
اس وقت بجلی کا شارٹ فال ساڑھے تین ہزار میگا واٹ تک کا ہے، گرمیوں میں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک کا ہوتا ہے،ملک میں دو طرح لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے،سسٹم کو چلائے رکھنے کیلئے 50 ایچ زیڈ کی فریکوئنسی بنائے رکھنے پڑتی ہے جس کیلئے جبری لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے،ملک میں بجلی کی طلب میں ہر سال 14 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایڈیشنل سیکر ٹری پانی و بجلی نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بہتر بنانے کیلیے ایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون سے منصوبہ جاری ہے۔ سردار عاشق گوپانگ نے سوال کیا کہ اگر عام دنوں میں شارٹ فال کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو عید کے دنوں میں کیسے لوڈشیڈنگ ختم کر لیتے ہیں۔ جس پر حکام نے انکشاف کیا کہ عید کے دنوں میں مہنگے پاور پلانٹس چلا کر صارفین کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے،
یہ پلانٹس عام دنوں میں بند رکھے جاتے ہیں۔کنوئینر کمیٹی نے کہا کہ اگر شارٹ فال5 ہزار میگاواٹ ہے تو کیا دوہزار سترہ تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائیگی؟۔ جس پر حکام نے بتایا کہ صنعتوں کو ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے،جون 2017 تک 6 ہزار6 سو میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائیگی اور دسمبر 2017 سے جون 2018 تک12ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آجائے گی جبکہ 2022 تک 30 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں لے آئیں گے،انشااللہ دو ہزار سترہ تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ ہم مسلمان جو کام نہ کرنا ہو اس کے لیے انشاللہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں