اسلام آباد(سپیشل رپورٹ ) نیشنل سکیورٹی کونسل کی خبرلیک ہونے کی تحقیقات شروع کردی گئیں اوریہ خبرڈان اخبارکے رپورٹرسرل المیڈانے دی تھی ۔وزیراعظم کے احکامات کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے خبرلیک ہونے کے معاملے پروزارت اطلاعات کے اعلی افسر اورپاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہرائو تحسین کوطلب کرکے اس خبرکے لیک ہونے کی پوچھ گچھ کی ۔جبکہ دوسری طرف ذرائع کایہ کہناہے کہ ڈان اخبارکے اسٹنٹ ایڈیٹرسرل المیڈااورپاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رائو تحسین آپس میں گہرے دوست ہیں ۔معروف اینکرپرسن اورکالم نگارجاویدچوہدری نے بھی اپنے آج ورکل کے کالم میں انکشاف کیاہے کہ حکومت اخبار اور صحافی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس خبر کا تحریری ثبوت موجود ہے‘ یہ ثبوت ایڈیٹر نے بھی دیکھا اور اخبار کے مالکان نے بھی چنانچہ پیچھے سٹوری ”فیڈ“ کرنے والے لوگ اور وہ لوگ بچتے ہیں جن کی ہدایت پر یہ سٹوری ”فیڈ“ کی گئی تھی اور حقائق کو توڑ امروڑا گیا تھا‘ حکومت کے چند وزراءاپنی نجی محفلوں میں وزیراعلیٰ سندھ کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے ”آپ ان کا نام کیوں نہیں لیتے؟“ تو یہ جواب دیتے ہیں ”ہم عمران خان کے 30 اکتوبر کے دھرنے کی وجہ سے خاموش ہیں‘ ہم اس وقت پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کر سکتے“ وزیراعظم ہاؤس کا ایک گروپ پریس سیکرٹری محی الدین وانی کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے جبکہ دوسرا گروپ ذمہ داری پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان پر ڈال رہا ہے‘ یہ دونوں لوگ اپنی جگہ پریشان ہیں‘ یہ خود کو قربانی کا بکرا سمجھ رہے ہیں‘ حکومت کے ایک ایسے وفاقی وزیر بھی شک کی زد میں ہیں جن کی جرنیلوں سے متعلق وڈیو پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی‘ سرل المیڈا کی خبر کی وجہ سے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے تعلقات بھی خراب ہوئے‘ میاں شہباز شریف نے 6 اکتوبر کی صبح خبر پڑھتے ہی وزیراعظم آفس کو تردید جاری کرنے کی درخواست کی تھی لیکن وزیراعلیٰ کی درخواست شام تک ”پینڈنگ“ رہی‘ تردید اس وقت جاری ہوئی جب سیلاب بے شمار پل توڑ چکا تھا چنانچہ وزیراعلیٰ پنجاب سمجھتے ہیں ان کے نام سے جان بوجھ کر غلط اطلاعات منسوب کی گئیں‘ وزیراعظم ہاؤس کے وہ سرکاری اہلکار اس کے پیچھے ہیں جو ان کے خلاف ہیں اور وہ انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے‘ حکومت کو کچھ لوگ یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں آپ یہ معاملہ 20 اکتوبر تک گھسیٹتے رہیں‘ 20 اکتوبر کے بعد نئے آرمی چیف کا تقرر ہو جائے گا اور یوں پالیسی بدل جائے گی جبکہ حکومتی تحقیقات کی زد میں آنے والے حضرات عمران خان کے دھرنے کو ”غیبی امداد“ سمجھ رہے ہیں‘ یہ سمجھ رہے ہیں میڈیا ایک آدھ ہفتے میں عمران خان کی طرف متوجہ ہو جائے گا‘ الزامات کا بازار گرم ہو گا اور یہ تحقیقات سیاسی بازار کی گرمی میں پگھل جائیں گی لیکن میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا‘ سرل لیکس حقیقتاً سنجیدہ ایشو ہے‘ اس سے پاکستان کی سیکورٹی بھی کمپرومائز ہوئی اور فوج کو بھی عین جنگ کے درمیان بدنام کیا گیا چنانچہ حکومت اسے قالین کے نیچے نہیں چھپا سکے گی‘ دو‘ تین چار لوگوں کا سر ضرور جائے گا اور اگر سر بچ گئے تو حکومت جائے گی‘ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔