اسلام آباد/لاہور( این این آئی)ترکی کے سفیر کی جانب سے پاکستان سے جلا وطن رہنما فتح اللہ گولن سے متاثرہ حزمت تحریک کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کی بندش کے مطالبے سے پاکستان میں موجود پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گئے ،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، خیر پور اور جامشورو میں موجود 28 سکولوں میں تقریباً 10 ہزار کے قریب طلبہ پرائمری سے اے لیول تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ترک صدر رجب طیب اردگان سے قربت اور پاکستان کے ترکی کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے سبب وفاقی حکومت پر شدید دباؤ ہے کہ وہ ایسا فیصلہ کرے جس سے پاکستان کا قریبی دوست ملک ناراض نہ ہو۔بتایا گیا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ ترک سفیر کے اس مطالبہ پر انتہائی سنجیدگی سے غور کررہا ہے اور اس حوالے سے سیکرٹری خارجہ نے ایک اجلاس کی سربراہی بھی کی جس میں اس مطالبے پر عملدرآمد کے حوالے سے آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔یہ اسکولز پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز اینڈ کالجز نیٹ ورک کے تحت قائم کیے گئے تھے تاہم ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکام نے فتح اللہ گولن سے وابستہ افراد اور اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کررکھا ہے۔پاک ترک نیٹ ورک نے باضابطہ طور پر اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کاکسی بھی سیاسی اور مذہبی تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ جب بات معیاری تعلیم کی فراہمی کی ہو تو ہم گولن کے فلسفے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے رہنما نہیں ہیں، ہمارا کوئی بانی یا رہنما نہیں۔انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایسوی ایشن اور اسلام آباد میں موجود ترک حکومت کے نمائندوں کے درمیان رنجش میں اضافہ ہورہا ہے۔پاک ترک اسکول نیٹ ورک کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک رکن نے بتایا کہ تین برس قبل تک ترک سفیر ہمارے اسکولوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے، وہ اسکول میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کرتے تھے، اسکول البم میں ان کی تصاویر بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب ترک سفیر حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایسے بیانات دے رہے ہیں، ہمارے اسکولز کا نیٹ ورک آج بھی وہی کررہا ہے جو یہ 20 برس قبل کرتا تھا ،تبدیلی حکومت کے موقف میں آئی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور ہم ترک حکومت کے خدشات کو ضرور سنیں گے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا جائے گا اور دفتر خارجہ تمام صوبوں کو تحریری طور پر آگاہ کرے گا کیونکہ تعلیم صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی ہوگی کہ ان سکولوں میں ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں اور حکومت ایسا فیصلہ کرے گی جس سے طالب علموں کا نقصان نہ ہو۔