اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ انہوں نے کہا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت پر ایک سابق سفیر پاکستان کے مفادات کے خلاف لابنگ کر رہا ہے، ہم نے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں کامیابی کے ساتھ بھارت کی انٹری کو روک دیا، امریکہ میں سابق سفیر پاکستان کے خلاف لابنگ کر رہا ہے، جو امریکہ میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔، نائن الیون کے بعد مسلمان ممالک پر یلغار ہو ئی ، حالات کے پیش نظر خارجہ پالیسیاں بنتی ہیں، یہ تصور درست نہیں کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، مودی کے مسلمان ممالک کے دوروں سے پاکستان کے مسلم ممالک کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا،پاکستان کے ایران سمیت دیگر مسلمان ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں، کسی اور کی لڑائی اور جنگ لڑنے کی بجائے امریکی دباؤ کے باوجود اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ہے، ہم اگر اپنی کامیابیوں کو پس پشت ڈال کر ناکامیوں کا تذکرہ کریں یہ ہرگز درست نہیں،پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے،ہماری پالیسی ہے کہ کسی اور کی لڑائیاں نہ لڑیں ، سرحدی نظام کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل نہیں ہو گی، ہم نے عالمی امور پر ہمیشہ ملکی مفادات کو ترجیح دی۔وہ منگل کو قومی اسمبلی میں وزارت خارجہ کے مطالبات زر پر بحث سمیٹ رہے تھے،وزارت خارجہ کے مطالبات زر پر بحث میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ،پیپلز پارٹی کے نوید قمر ،شازیہ مری ، تحریک انصاف کی شیریں مزاری و دیگر نے حصہ لیا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وزارت خارجہ بچت کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کررہی ہے ، بھارتی وزارت خارجہ کا بجٹ 115ارب اور انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کا بجٹ بھی ہم سے بہت زیادہ ہے اور پاکستان کا بجٹ 15 ارب روپے ہے ، تین سال میں صرف 14فیصد بجٹ بڑھا اور اس سال ساڑھے چار فیصد سالانہ بجٹ میں اضافہ ہے، وزارت خارجہ بیرون ممالک سفارت خانوں میں ضروریات پوری کرنے کیلئے یہ چار فیصد سالانہ اضافہ ہوتا ہے، اکثریتی پاکستان کے سفارت خانوں میں جدیدیت آ چکی ہے، اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ایک ڈویژن بنایا گیا ہے اور جہاں پاکستانیوں کی اکثریت ہے وہاں زیادہ سہولیات دی جاتی ہیں، مجموعی طور پر دفتر خارجہ میں قابل اور محنتی لوگ موجود ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہ وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگر اپنی کامیابیوں کو پس پشت ڈال کر ناکامیوں کا تذکرہ کریں یہ ہرگز درست نہیں کہ یہ کہنا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی 70سال سے درست نہیں ہے غلط ہے، خارجہ پالیسی دنیاوی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیل ہوئی ہے، سنٹرل ایشیاء اور دیگر ممالک کے ساتھ روابط کو فروغ دیا گیا ہے، خارجہ پالیسی کا اہم مقصد اقتصادی ترقی اور بحالی ہے، خارجہ پالیسی کی ناکامی کا تاثر درست نہیں۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد مسلمان ممالک پر یلغار ہوئی ، حالات کے پیش نظر خارجہ پالیسیاں بنتی ہیں، یہ تصور درست نہیں کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو رہا ہے ، ایران کے ساتھ تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں،تاپی گیس پائپ لائن، کاسا1000منصوبہ سمیت دیگر منصوبوں پر پیش رفت ہو رہی ہے، مودی کے مسلمان ممالک کے دوروں سے پاکستان کے مسلم ممالک کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا،پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے،ہماری پالیسی ہے کہ کسی اور کی لڑائیاں نہ لڑیں ، سرحدی نظام کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل نہیں ہو گی، ہم نے عالمی امور پر ہمیشہ ملکی مفادات کو ترجیح دی، پاکستان کے اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات تاریخی ہیں۔کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا بھی ہماری پالیسی کا حصہ ہے، بھارت کے ساتھ کشیدگی تھی، مگر مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو نہیں بڑھایا، کس یاور کی لڑائی اور جنگ لڑنے کے بجائے امریکی دباؤ کے باوجود اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ہے ، مستقل وزیر خارجہ کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وزیراعظم کے اختیارات ہے کہ وہ مشیر تعینات کرے ،