واشنگٹن (نیوز ڈیسک) پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتوں اور ساتھ ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اتفاق رائے کیا تھا اور یہ ایسی جامع حکمت عملی ہے جو کاغذ پر تو ہے لیکن اس کے زیادہ تر حصے پر موثر انداز سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ متحرک انداز سے ہونے والی کارروائی تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے، لیکن اب تک پنجاب میں کارروائی کی ضرورت ہے۔ مقامی تھنک ٹینک، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس، سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے میدانِ جنگ کے باہر دہشت گردی کے خلاف کہیں بھی کارروائی نہیں کی گئی۔جنگ رپورٹرواجد علی شاہ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان ہماری انسداد دہشت گردی یا انسداد انتہا پسندی پالیسی میں ملٹری کے ترکیبی جزو سے بھی آگے جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس سے بیشتر حصے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خدشہ ہے کہ آپریشنل سطح پر اور ساتھ ہی دل و دماغ کی سطح پر ہم نے جو نتائج و فوائد حاصل کیے تھے وہ ضایع نہ ہوجائیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کراچی آپریشن کی تعریف کی لیکن دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے (سلیپر سیل) اور نو گو ایریاز اب بھی باعث تشویش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی بڑے مذہبی دہشت گردوں کو اس آپریشن کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ امریکی ماہرین اور تارکین وطن سے بند کمرے میں خطاب کرتے ہوئے ہوئے بلاول نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو اس وقت تک پائیدار نہیں بنایا جا سکتا جب تک انتہاپسندی کے خلاف اقدامات نہ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ الزام عائد کیا کہ حکومت ان سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جن کے پاس انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ٹھوس پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم جیسی سیکولر جماعت کے رہنما پر خطاب کی پابندی، اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی مقدمات کا قیام اور بالخصوص ان جماعتوں پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات کا قیام حکومتی پالیسی کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لڑنے کیلئے جو ہم نے اتفاق رائے حاصل کیا تھا؛ خدشہ ہے کہ وہ ضایع جائے گا کیونکہ وفاقی حکومت کو اس کام کیلئے جو اختیارات دیئے گئے تھے انہیں مینڈیٹ سے بڑھ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلاول نے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی کے تحت حکومت تھی جس نے قومی اتفاق رائے پیدا کیا اور جنوبی وزیرستان میں پہلا کامیاب فوجی آپریشن شروع کیا۔ انہوں نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالی اور شرکاء کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ تھوڑے زیادہ ایف سولہ طیارے استعمال کیے جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کی وجہ سے ملک گیر سطح پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور ریاست نے بالآخر اچھے اور برے طالبان میں تمیز کرنا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے نصاب میں اصلاحات کا قانون بنایا ہے اور مدارس کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور اس کا مقصد ایسا تعلیمی نظام لانا ہے جو آئندہ نسل کی سوچ کو متحرک کرے گا۔ اعداد و شمار کا پس منظر دیئے بغیر، بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح پنجاب کے مقابلے میں آدھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غربت کی وجہ سے غریب لوگ انتہا پسندی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہی اور شہری علاقوں میں بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہماری پالیسی میں اس مسئلے کے حل پر بات نہیں کی جاتی۔