لاہور (نیوز ڈیسک)لاہور ہائیکورٹ میں برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے والے حریت پسند بھگت سنگھ کی پھانسی کا مقدمہ دوبارہ سے کھولنے کے لیے لارجر بنچ کی تشکیل کی سفارش کی گئی ہے۔مقدمے کی ازسر نو سماعت کی درخواست بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے صدر امتیاز راشد قریشی کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔پاکستان میں بھگت سنگھ اور گنگا رام کے گاؤں آج بھی نازاں بھگت سنگھ نصاب کا حصہ نہیں ۔بھگت سنگھ کو 1931 میں لاہور کے شادمان چوک پر تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ ان پر ایک برطانوی پولیس آفیسر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ انھیں برصغیر میں برطانوی قبضے کے خلاف مزاحمت کی اہم علامت اور تحریک آزادی کا ہیرو مانا جاتا ہے۔امتیاز راشد قریشی کا کہنا ہے کہ ’بھگت سنگھ خطے کے ایک معروف انقلابی رہنما ہیں۔ انھیں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ تھانہ انارکلی میں موجود مقدمے کی ایف آئی آر میں بھگت سنگھ کا نام موجود نہیں ہے۔ اور محض لاہور ہائیکورٹ کے رجسڑار کے بلیک وارنٹ پر پھانسی دے دی گئی۔‘امتیاز راشد قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مقدمے میں 450 عینی شاہدین موجود تھے جنہیں سنا ہی نہیں گیا۔ لہٰذا تاریخ کی درستگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس مقدمے کی ازس نو سماعت کی جائے۔ اور اس مقصد کے لیے پانچ یا اس سے زائد ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے۔جٹسس خالد محمود خان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل دو رکنی ڈویڑنل بنچ نے اس مقدمے کی سماعت کی اور بھگت سنگھ اور غازی علم الدین کے تاریخی مقدمات میں دی گئی پھانسیوں کی ازسر نو سماعت کے لیے لارجر بنچ بنانے کے لیے یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بھگت سنگھ کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں وکلا سول سوسائٹی میڈیا اور عوام کی جانب سے اس معاملے میں بہت دلچسپی لی جارہی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے سات وکلا اس مقدمے میں پاکستانی وکلا کی مدد کے لیے لاہور آنے کے خواہشمند ہیں جنہیں بھارتی حکومت کی جانب سے این او سی بھی جاری کیا جاچکا ہے۔مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز لارجر بنچ کی تشکیل کے بعد ہی ہوسکے گی۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے لیے درخواست 2013 میں دائر کی گئی تھی۔