اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

12 اکتوبر 1999ءکا سبق

datetime 12  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوز ڈیسک) 12اکتوبر 1999ءکے واقعہ سے سبق سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے جب سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے خود کو عہدے سے برطرف کیے جانے پر وزیراعظم نوازشریف کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور ملک پر ایک بار پھر طویل فوجی راج مسلط ہوگیا تھا جب ملک میں جمہوریت ابھی جڑیں پکڑ رہی تھی، ملٹری اور سویلین دونوں کیلئے یہ ایک سبق ہے، اس کے بعد سے دونوں کے تعلقات نشیب و فراز کے باوجود بہتر ہوئے ہیں جو جمہوریت کیلئے اچھا ہے اگر برقرار رہے۔ جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق پرویز مشرف کے بعد پہلی جمہوری سول حکومت نے 2008ء سے 2013ءتک اپنی مدت پوری کی اور آئی ایس آئی کے ”سیاسی سیل“ کا خاتمہ ہوا، موجودہ ن لیگ حکومت اپنی نصف مدت مکمل کر چکی ہے، سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف دونوں نے جمہوری نظام کی پشت پناہی کی، آج جب ہم 12 اکتوبر کی سالگرہ پیر کو منا رہے ہیں، لاہور اور اوکاڑہ میں اہم سیاسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں نتائج سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اقدار کا احترام کیا جا رہا ہے اور بلوغت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ سویلین رہنماﺅں کو یہ سیکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ جب انہیں اقتدار ملے تو عوام کو سہولتیں فراہم کریں اور اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کریں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت چاہے کتنی ہی بری کیوں نہ ہو اس کو صرف آئین 1973ءکے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے، غیرآئینی طریقوں سے نہیں، جیسا کہ 1958ء، 1968ء 1977ء اور 1999ء میں کیا گیا، نوازشریف نے 12 اکتوبر 1999ءکو جس طرح آرمی چیف کو ہٹایا وہ غلط طریقہ تھا لیکن مشرف نے غیرآئینی اقدام کیا تھا۔اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ دوسرے ہی دن انہوں نے ”چیف ایگزیکٹو“ کا عہدہ تخلیق کیا، شریف الدین پیرزادہ کا شکریہ کہ مشرف نہ صدر تھے نہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر! انہوں نے تقریباً 9 برس حکمرانی کی، پی سی او (عبوری آئینی حکم نامہ) کے ذریعہ اپنی منتخب کردہ عدلیہ سے قانونی جواز حاصل کرنے کے باوجود، وہ 3 نومبر 2007ءکو اپنے ایمرجنسی پلس اقدام کیلئے قانونی جواز حاصل نہیں کرسکے، یہ ہمارے جمہوری نظام کا المیہ ہے کہ سویلین حکمرانوں کو پھانسی پر لٹکایا جا سکتا، جیل میں بند کیا جا سکتا اور جلاوطن کیا جا سکتا ہے مگر آمر کی آئین شکنی اور دستور کو معطل کرنے کے باوجود اس پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جا سکتا، اس فرق اور امتیاز نے سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلاءپیدا کر دیا جس کا نتیجہ عدم تحفظ ہے۔ جب نوازشریف 2013ء میں تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو وہ آئین کی شق چھ کے تحت پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے کیونکہ وہ نہیں بھولے تھے کہ مشرف نے 99ء میں ان کے ساتھ کیا کیا تھا تقریباً موت کی سزا دیدی تھی مگر غیرملکی مداخلت نے اس کو روک دیا تھا اور نوازشریف ایک معاہدے کے تحت طویل جلاوطنی پر چلے گئے تھے، وزیراعظم نوازشریف کو جلد یہ احساس ہو گیا کہ مشرف پر مقدمہ چلانے کے اسٹیبلشمنٹ پر اچھے اثرات نہیں ہوں گے چنانچہ آج وہ اس معاملے پر بات بھی نہیں کرتے، صورتحال آپریشن ضرب عضب کے آغاز اور نیشنل ایکشن پلان سے بہتر ہوئی، جب حکومت نے ابتداء میں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو اسٹیبلشمنٹ نے اس کوشش کی مخالفت نہیں کی تاہم بات چیت کی کامیابی پر سخت شکوک کا اظہار کیا تھا، یہ نوازشریف کا اچھا فیصلہ تھا کیونکہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد عمران خان سمیت پوری اپوزیشن نے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف نے جو کردار ادا کیا اس نے واضح طور پر یہ ظاہر کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی تاوقتیکہ سیاسی جماعتیں ایسا نہ چاہیں، یہ نوازشریف تھے جنہوں نے پہلی بار انہیں کردار ادا کرنے کیلئے کہا جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہوگئی، اس نے عمران خان کےسوا حزب اختلاف کو مایوس کیا جو پارلیمنٹ کی پشت پر کھڑی تھی اور عمران پر دباﺅ تھا، عمران خان اور طاہرالقادری دونوں ا?رمی چیف سے ملاقات کے بعد مایوس واپس ا?ئے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا، اگرچہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد قومی امور میں فوج کا کردار بڑھا ہے مگر اس کو پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے، سیاسی قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ سویلین ادارے پولیس حتیٰ کہ پیرا ملٹری فورسز عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف اس انتہائی مشکل جنگ کو لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ماضی میں نوازشریف کے مختلف فوجی سربراہان کے ساتھ ”محبت و نفرت“ کے تعلقات رہے مگر پرویز مشرف کے ساتھ ہمیشہ کشیدہ تعلق رہا جب مشرف کو آرمی چیف نامزد کیا تھا تو وہ جنرل کو جانتے تک نہیں تھے، اس لیے 12 اکتوبر 1999ءکا چار مختلف جہتوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ (1) پرویز مشرف کی نامزدگی: وہ میاں نواز شریف کی پہلی چوائس نہیں تھے، نوازشریف پہلے جنرل علی قلی خان کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے جو مشرف سے سینئر تھے مگر بطور کورکمانڈر ایک اخبار کو ان کے انٹرویو نے نوازشریف کی سوچ کو بدل دیا، نوازشریف کی ”کور کمیٹی“ کے دو قریبی ممبر تھے شہباز شریف اور چوہدری نثار، جو مری جا کر پرویز مشرف سے ملے اور دونوں نے جنرل کرامت کے جانشین کیلئے ان کی مضبوط سفارش کی، بعض ذرائع کے مطابق مشرف کی تقرری میں کردار ادا کرنے والے تیسرے شخص حمید اصغر قدوائی تھے، (2) انقلاب یا جوابی انقلاب: اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، نوازشریف اور پرویز مشرف دونوں کا اس پر اپنا نقطہ نظر ہے لیکن کارگل سے قبل دونوں کے تعلقات کے بارے میں بیشتر لوگ نہیں جانتے، پرویز رشید کے مطابق، جو اس وقت پی ٹی وی کے چیئرمین تھے اور 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی انقلاب کے روز بھاری قیمت ادا کی تھی، جنرل پرویز مشرف ہمیشہ سے خواہش مند نظر آتے تھے کیونکہ وہ اکثر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر معیشت، توانائی بحران، تعلیم، امور خارجہ وغیرہ میں دلچسپی لیتے تھے، میاں صاحب نے ہمیشہ کوشش کی وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض تک محدود رہیں، پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ”جی ہاں، کارگل ر±خ موڑنے والا ثابت ہوا، مگر کشیدگی بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورئہ پاکستان سے شروع ہوگئی تھی“ پرویز رشید کے مطابق وزیراعظم نوازشریف سے اس وقت کے کور کمانڈر طارق پرویز کی مبینہ ملاقات کے تنازع نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا، وہ وزیراعظم سے کبھی نہیں ملے تھے مگر میاں صاحب نے ایشو نہیں بنایا تھا، مشرف ہمیشہ تردید کرتے ہیں کہ ان کا حکومت کو برطرف کرنے یا کوئی مارشل لاء لگانے کا ان کا پلان تھا، شریف حکومت کا فیصلہ جلدبازی میں تھا جو اس کے کیے جانے سے ظاہر ہوتا تھا، ا?ئی ایس ا?ئی کے سابق سربراہ جنرل ضیاءالدین کی نامزدگی مسترد کر دی گئی، 12 اکتوبر کے واقعہ اور انقلاب کیلئے صرف مشرف کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہوگا، ضیاء الدین بٹ کی کمانڈ کو تسلیم نہ کرنے والی ٹیم کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، بدقسمتی سے ، اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی، یہ بٹ تھے جنہوں نے کورٹ مارشل کا سامنا کیا جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا، پرویز مشرف دونوں قومی رہنماﺅں نوازشریف اور بے نظیر کو سیاست اور قومی دھارے سے باہر رکھنا چاہتے تھے مگر الیکشن میں پی پی، ن لیگ کے ساتھ بڑی پارٹی کے طور پر ا±بھری تاہم دھڑے پیدا کیے گئے اور مسلم لیگ ق اور پی پی پیٹریات تشکیل دیے گئے، ایم کیوایم، جس نے 2012ءتک نے فاصلہ رکھا اپنے تین مطالبات تسلیم منظور کیے جانے کے بعد حمایت کی، ان مطالبات میں ایم کیو ایم حقیقی پر پابندی، اپنے گورنر کو اضافی اختیارات دینا (کراچی و حیدرآباد کا انتظامی کنٹرول دینا) اور ترقیاتی فنڈز دینا شامل تھے، سال 2007ئ ٹرننگ پوائنٹ تھا، اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی تھی کہ مشرف اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کر دیں، بے نظیر اور نوازشریف کے دستخط سے میثاق جمہوریت تشکیل پایا جس نے اسٹیبلشمنٹ کو سخت پیغام دیا (3) مشرف۔ عمران تعلقات: عمران نے انہیں سپورٹ کیا کیونکہ وہ سیاست سے نواز اور بے نظیر دونوں کی بے دخلی چاہتے تھے، لیکن مشرف نے پہلے انہیں چیئرمین پی سی بی بنانا چاہا، بعدازاں 2002ءکے عام انتخابات کے دوران ایک ملاات میں مشرف نے عمران خان سے کہا کہ نوازشریف کا مقابلہ کرنے کیلئے چوہدری بہتر رہیں گے، اس ملاقات میں موجودہ پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما نے بتایا کہ اس کے بعد عمران خان نے مشرف سے فاصلے اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا، (4) آگےکا راستہ: اچھے سول ملٹری تعلقات، مگر کیسے؟ آئین کا احترام، قانون کی عملداری اور اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے عدم مداخلت کی پالیسی، عدلیہ کو مزید خودمختار بنایا جائے مگر قابل احتساب ہونی چاہیے، میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے مگر ذمہ دار اور اخلاقیات پر عملدرآمد ہونا چاہیے، جہاں تک آرٹیکل VI کا تعلق ہے، اس پر عمل نہیں ہو سکتا، یہ سول ملٹری تعلقات کیلئے خطرہ ہے، شاید پرویز مشرف اقتدار سے محرومی کے بعد بھی طاقتور ہیں اور نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بننے کے باوجود بےاختیار ہیں۔



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…