۔3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ بادی النظر میں ممکن ہے کہ سلمان تاثیر نے قانون کے بارے میں تحفظات بیان کیے ہوں اور گستاخی نہ کی ہو پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے اس کے بعد باقی دلائل کا جائزہ لیں گے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت بعض لوگوں نے اس کو دیگر عدالتوں کے متوازی قرار دے کر اس کا قیام چیلنج کیا تھا کیا اس قانون کے خلاف بات کرنے والے ججز کے خلاف عذرداری کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے قانون پر بات کرنا جمہوری ہے مگر یہاں بات ناموس رسالت کی ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزم خود کہہ رہا ہے کہ ایک مجلس میں خطاب سے اثر لے کر اس کا ذہن بن چکا تھا کہ وہ یہ اقدام کرے گا۔ وکیل نے کہا کہ وقاص اچھا گواہ تھا 29 گواہ پیش ہی نہیں ہوئے۔ تفتیش میں 11 گواہوں کی بات کی گئی تھی ہمارے پاس اس وقت کا گواہ نہیں تھا۔ وکیل نے ممتاز قادری کا تمام تر بیان پڑھکر سنایا۔ لگتا تھا کہ پراسیکیوشن کو گواہوں نے دباﺅ پر ان کی مرضی کا بیان دیا۔ ممتاز قادری پر جرح کے لئے انہیں طلب نہیں کیا گیا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ ایک شخص 28 گولیاں چلاتا ہے باقی لوگ بھی اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں گولیاں چلا کر کام ختم کرتا ہے اسلحہ زمین پر رکھتا ہے اور لیٹ جاتا ہے شک تو پڑتا ہے کہ سب ملے ہوئے تھے وکیل نے کہا کہ سارے مطمئن تھے مگر ڈر کے مارے بات نہیں کر رہے تھے۔