اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اگرچہ جنرل (ر) پرویز مشرف 2007 میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو دھمکیاں دینے حتیٰ کہ فون کرنے کی بھی تردید کررہے ہیں، مگر انہوں نے اس کی تردیداس وقت نہیں کی تھی جب پلئرز انعام یافتہ امریکی صحافی رون سو سیکنڈ نے نہ صرف اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں 2008 میں ایسا ہی انکشاف کیا تھا بلکہ مشرف اور بینظیر کے درمیان بات چیت کا متن بھی جاری کیا تھا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس گفتگو کی نہ صرف ریکارڈنگ موجود ہے بلکہ کسی بھی عدالت میں قابل قبول شہادت کے طور پر استعمال کیلئے فارنزک ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ بینظیر قتل کیس سے منسلک وکلاءکا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے جمعہ کو تردیدی بیان اپنے وکلاءکے مشورے پر جاری کیا کیونکہ ان کے وکلاء سمجھتے ہیں کہ 8سال پرانی فون کال ناقابل سراغ ہوگی چنانچہ قابل قبول شہادت نہیں بن سکتی۔جنگ رپورٹر احمد نورانی کے مطابق 2008 میں جب کتاب شائع ہوئی تو مشرف نہ صرف صدر پاکستان تھے بلکہ بریگیڈیئر راشد قریشی، فواد چوہدری، احمد رضا قصوری، شیرافگن نیازی اور بیرسٹر سیف جیسے فعال و متحرک ترجمان تھے مگر کوئی تردید یا وضاحت جاری نہیں ہوئی تھی۔ انکشاف سے بھرپور کتاب میں سو سیکنڈ لکھتا ہے کہ کنڈولیزا رائس کی زیرسربراہی محکمہ خارجہ نے بینظیر کی وطن واپسی کی بھرپور حمایت کی تھی اور اتنی ہی قوت سے اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے مخالفت کی تھی جو بینظیر کو ”الجھی ہوئی اور ناقابل پیشنگوئی شخصیت“ قرار دیتے تھے۔ کتاب کے مطابق جب بینظیر بھٹو، مشرف پر انتہائی سخت تنقید کرنے لگیں تو اسلام آباد میں امریکی سفیر نے مشرف پر تنقید کو نرم کرنے کا مشورہ دیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ بینظیر اکثر افسوس کا اظہار کرتی تھیں کہ ڈک چینی نے مشرف کو رویہ بہتر کرنے کیلئے نہیں کہا بلکہ بینظیر پر ہی مشرف کے ساتھ معاملات کرنے پر زور دیتے رہے۔ کتاب کے مطابق ٹیلیفونک گفتگو میں جنرل پرویز مشرف نے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بینظیر نے کہا ”الیکشن کمیشن میں بعض حقیقی اصلاحات میں ا?پ مجھے کیا دے سکتے ہیں؟ کال ریکارڈ کے مطابق مشرف نے جواب دیا ”وہ ان اصلاحات سے زیادہ توقعات نہ رکھیں“ کتاب کے مطابق بینظیر کے نمائندوں نے ان کی وطن واپسی کا پلان تیار کرنے کیلئے 2006 میں امریکی محکمہ خارجہ سے رابطے شروع کردیئے تھے مگر امریکا نے چیف جسٹس کی برطرفی کے بعد ہونے والے وسیع تر مظاہروں کے بعد اس کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔ مصنف لکھتا ہے کہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی یہ کام کررہی تھی، بینظیر کی واپسی سے قبل تین ہفتوں تک ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے، جب وہ امریکی قانون سازوں بشمول جان کیری اور محکمہ خارجہ کے حکام سے کیپٹل ہل میں ملاقاتیں کررہی تھیں، مصنف لکھتا ہے ”اچانک جوڑا (بینظیر و آصف زرداری) مڑا، بینظیر کا ایک مددگار ان کی طرف تیزی سے آرہا تھا، اس نے کہا ابھی ابھی انہیں مشرف کے ایک ساتھی کی فون کال آئی ہے، مددگار کا کہنا ہے کہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کی شرط ختم کرنے کیلئے بینظیر کے مطالبہ کو تسلیم کرنے پر مشرف تیار نہیں اور وہ بینظیر سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بینظیر نے اسلام آباد سے آنے والی فون کال لے لی اور مشرف سے کہا ”دو مرتبہ منتخب ہونے کا معاملہ ان کیلئے اہم ہے،اگر آپ اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو مجھے آپ کیا دے سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن میں بعض حقیقی اصلاحات؟ مشرف نے انہیں جواب دیا، وہ اس سے زیادہ امید نہ رکھیں۔“اپنی اکثر کالز میں وہ حیران کن طور پر خوشگوار ہوتے تھے مگر بعض اوقات بدلے ہوئے، ان کی آواز سخت ہوجاتی، ان کا مذاق اڑاتے۔ بینظیر نے ان سے پوچھا کیا امریکی حکام نے میری حفاظت آپ کی ذمہ داری بنانے کیلئے ان سے بات کی ہے؟ مشرف نے جواب دیا ”ہاں کسی نے کہا ہے، پھر قہقہہ لگایا۔ انہوں نے اس صاف دھمکی کے ساتھ بات ختم کی ”آپ کو بعض چیزیں سمجھ لینی چاہئیں، آپ کی سیکورٹی کا انحصار ہمارے تعلقات کی نوعیت پر ہے، انہوںنے فون رکھ دیا، وہ بیمار نظر آنے لگیں، کراچی آمد پر قاتلانہ حملے کے بعد بینظیر کو مشرف کے فون کے بارے میں کتاب میں لکھا ہے ”اگلے دن مشرف نے بینظیر کو فون کیا، انہوں نے ہچکچاہٹ کے ساتھ مشرف کی ہمدردی کو قبول کرلیا۔ مشرف نے کہا ”بی بی میں دشمن نہیں ہوں“ بینظیر بہت کم بولیں، انہیں معلوم تھا کہ فون ریکارڈ ہورہا ہے، یہ نئی پیشرفت تھی اور بینظیر اپنے پتے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔