ایک وقت تھاکہ جب اسے اس کے مخصوص انداز کی سیاست کے حوالے سے یاد کیا جاتا تھا، جس پر ہمیشہ تنقید بھی کی گئی ، 1992 سے لےکر اب ان کے خلاف کیا جانےوالا یہ چوتھا آپر یشن ہے، لیکن پہلی مرتبہ یہ جماعت مکمل سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ یہ وقت اس کے قائد الطاف حسین کیلئے بھی انتہائی سخت ہے، جنہیں بیمار ہونے کے باوجود لندن میں منی لانڈرنگ کے حوالےسے ایک سنگین مقدمے کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی سندھ حکومت میں ہونے کے باوجودرواں برس جنوری میں کراچی آپریشن میں تیزی آنے کے بعد اپنی گرفت کھوچکی ہے۔ ایک طرف الطاف حسین کو لندن میں الزامات کا سامنا ہے اور اس کے سیکڑوں کارکنان 90روزہ ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں ہیں ،ان پر ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے سنگین الزامات عائد ہیں۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی دبئی میں موجود اعلیٰ قیادت کیلئے بھی صورتحال بد سے بدترین ہورہی ہے۔پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے جب سے متنازع بیان دیا ہے ، اور اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا ہے، وہ کچھ بیوروکریٹس کی گرفتا ر یو ں اوران کے خلاف انکوائریاں شروع ہونے کے بعد واقعی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے تو صورتحال کو بدترین بنادیا۔ جب پہلی مرتبہ رینجرز کی پریس ریلیز میں بلاول ہاﺅس کا نام آیا، تو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام پر پیپلزپارٹی نے سخت ردعمل اختیارکیا۔ کنارہ کشی اختیار کرنے سے قبل زرداری صاحب کے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں