جب ان کیسز کا ٹرائل ہوگا تو آپ دیکھیں گےکہ کس طرح سیاست اور دہشت گردی ایک دوسرے میں ضم نظر آتی ہے۔ امریکی کی قیادت میں نیٹو کے افغانستان پر حملے کے بعد کراچی القاعدہ جیسے دہشت گردنیٹ ورکس محفوظ پناگاہ بن گیا۔القاعدہ کے مفرور ارکان بشمول خالد شیخ محمد، رمزی الشیبا اور دیگر سیلپر سیلز بن گئے۔ اس گروپ کے کچھ ہمددر بھی تھے جنہوں نے انہیں معاونت فراہم کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کئی گروپس کالعدم قرار دے دیے گئے اور ان کے اکاونٹس بھی منجمد کردیے گئے۔ سماجی بہود کے اداروں کو بھی اسی قسم کے مشکلات کا سامنا رہا۔ ان میں کچھ نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں سے تعلقات استوارکیے۔ کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہونے کے باعث دہشت گردی کی مالی معاو نت کا مرکز بھی بن گیا۔ جب 1992میں پہلا فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو دہشت گردی یا مجرمانہ سرگرمیاں بڑی حد تک نسلی اور فرقہ ورانہ کارر وا ئیوں پر مبنی تھیں۔ نجی ٹی وی کی غیر موجودگی میں سیکٹروں ، ہزاروں افغان مہاجرین اور مشتبہ بیرونی عسکریت پسنداکثر ہی اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتے تھے۔ تاہم انڈر ورلڈ کا محرک بھی موجود تھا ،جس کے کچھ سیاسی رہنماوں کے ساتھ تعلقات کا شبہ بھی ظاہر کیا گیا۔ گزشتہ ایک دہائی میں کراچی کے حوا لے سےمعاشی سرگرمیوں کے بجائے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی گرفتار یوں کے حوا لے سے خبریں سامنے آئیں۔اس بدترین صورتحال میں بھی اس شہر نے ملک کو 70فیصد آمدنی فراہم کی۔ ایم کیو ایم جسے آج مشکل صورتحال کا سامنا ہے،
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں