کراچی(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ سندھ پولیس کے تین ہزار 400افسران و اہلکار مختلف مقدمات میں ملوث ہیں، جن میں سے چودہ سو کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ عدالت نے جرائم میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں سے متعلق پیش کی گئی رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہویے اسکروٹنی کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی اور آئی جی سندھ و دیگر افسران کوطلب کر لیا ہے۔عدالت نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں پولیس افسر ثناءاللہ عباسی اور سلطان خواجہ شامل ہیں۔پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران بھتہ خوری ،زمینوں پر قبضے ، لیاری گنگ وار اور ایم کیوایم کے جرائم پیشہ افراد کی مدد ، ایرانی تیل کی فروخت میں ملوث ہیں اور غیرملکیوں کے لئے جعلی شناختی کارڈ بنانے والوں کی بھی مدد کرتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے جرائم میں ملوث پولیس افسران واہلکاروں سے متعلق سندھ پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پولیس کے جرائم میں ملوث افسران واہلکاروں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کی۔سندھ پولیس کی جانب سے عدالت میں تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔پولیس رپورٹ کے مطابق 3400سے زائد پولیس افسران واہلکار جرائم میں ملوث ہیں ۔ عدالت نے پولیس رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ جانچ پڑتال کے لیے نئی کمیٹی قائم کی جائے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر اے ڈی خواجہ،ثناءاللہ عباسی اور سلطان خواجہ پر مشتمل جانچ پڑتال کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔سندھ پولیس کی جانب سے عدالت میں ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے