جمعہ‬‮ ، 10 جنوری‬‮ 2025 

لوگوں کے گھروں میں جھاڑو دینے والی نامور مصنفہ ’’ہیلڈر‘‘ کی جہد مسلسل

datetime 14  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بے ترتیب اجڑے بچپن معمولات زندگی سے ٹکراتی جوانی اور غربت کے مہیب سایے کوپچھاڑتےجھاڑو پونچھا ہاتھ میں لئے ‘نوک قلم سے لفظوں کی مزدوری کرتے وہ ادب کے افق پر ایسا ستارہ بن کر چمکی کہ اسے پڑھنے والے اس کے گھر میں جھانکنے لگے‘ انہوں نے اس کی زندگی کا پرت پر ت ٹٹولنے کی کوشش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ پلکوں پر ٹھہرے آنسوؤں اور یادوں کے کارواں کی ایسی کشتی میں سوار تھی جس میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچا انتہائی مشکل تھا پھر کیسے اس نے کشتی پار کرلی؟ آج اونچے ایوانوں سے لے کر جھاپڑی فروشوں تک پنچ تارہ ہوٹلوں کے ہالز میں بیٹھ کر اقلیم دانش پر فرماں روائی کرنے والوں سے لے کر بیلوں کو ہانکتے کسانوں تک ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ غربت کے سایے میں جوان ہونے والی ’’ہیلڈر ‘‘لکھاری کیسے بن گئی؟

haldar0
کشمیر کی سرسبزوادیوں میں آنکھ کھولنے والی’’بے بی ہیلڈر‘‘ کینوس پر جب بھی رنگ بکھیرتی ایک ایسی تصویر ضرور بن جاتی جو زندگی کے پہئے کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوتی۔ بکھرے رنگ اس کی زندگی میں خوشیو ں کی چغلی کھاتے رہے۔ اچانک ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ اسے لگا دنیا پہلے جیسی نہیں رہی۔ کینوس سے سارے رنگ غائب ہو گئے۔ ایک سیاہ دھبہ نمودار ہوا سارے رنگوں پر اندھیرے کا سایہ پڑ گیا اس کی زندگی اس کی نہ رہی۔ کچے رنگوں سے کھیلتے کھیلتے وہ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ یہی میرے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ بچپن کا دالان عبور کرنے سے قبل وہ شفقت مادری سے محروم ہو گئی تھی۔ ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ سوتیلی ماں سگے باپ نے ایک سخت گیر آدمی سے اس کی شادی کر دی۔ بیاہ کے لمحے وہ زندگی کے بارہویں برس میں تھی اگلے برس ماں بن گئی ۔ پندرہ برس کی عمر میں اس کی گود میں تین بچے تھے۔
پھر کیا ہوا؟ کیا بے بی ہیلڈر گھریلو ذمے داریوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے غربت کی تنی ہوئی رسی پر چلتے چلتے بے چارگی کے المیے کا شکار ہو گئی؟ایسا المیہ جو اس خطے کی عورت کے مقدر کا حصہ ہے ۔ ایسا ہونا متوقع تھا مگر ایسا ہو ا نہیں۔ اپنے بے ترتیب اجڑے بچپن معمولات زندگی سے ٹکراتی جوانی اور غربت کے مہیب سایے کوپچھاڑتے ٗ جھاڑو پونچھا ہاتھ میں لئے ‘نوک قلم سے لفظوں کی مزدوری کرتے وہ ادب کے افق پر ایسا ستارہ بن کر چمکی کہ اسے پڑھنے والے اس کے گھر میں جھانکنے لگے‘ انہوں نے اس کی زندگی کا پرت پر ت ٹٹولنے کی کوشش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ہیلڈر پلکوں پر ٹھہرے آنسوؤں اور یادوں کے کارواں کی ایسی کشتی میں سوار تھی جس میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچا انتہائی مشکل تھا پھر کیسے اس نے کشتی پار کرلی؟ آج اونچے ایوانوں سے لے کر جھاپڑی فروشوں تک پنچ تارہ ہوٹلوں کے ہالز میں بیٹھ کر اقلیم دانش پر فرماں روائی کرنے والوں سے لے کر بیلوں کو ہانکتے کسانوں تک ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ غربت کے سایے میں جوان ہونے والی بے بی ہیلڈر لکھاری کیسے بن گئی؟۔ اس سوال کاجواب اس کی کتاب میں مل جائے گا سادہ پیرائے میں رقم کردہ اس کی کتاب جس کا نام ’’اندھیرا اجالا‘‘ ہے‘ مارکیٹ میں آئی تو پہلا ایڈیشن روٹی کے ٹکڑوں کی طرح فروخت ہو گیا جلد پبلشر نے دوسرا پھر تیسرا ایڈیشن بھی چھاپ دیا۔ یہ صورتحال جان کر ہیلڈر کی آنکھوں میں نئی صبح کی چمکیلی کرنیں چھا گئیں اور ماتھے پر عزم کا اجالا۔

IMG15093045 copy

’’باپ نے اکلوتی بیٹی کو بھی بوجھ سمجھا اور اپنے سے بھی زیادہ عمر کے مرد سے اس کی شادی کر دی‘ ہیلڈر دلہن بنی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی‘ اس لمحے اس نے اپنی ایک سہیلی سے کہا’’اچھا ہے میری شادی ہو رہی ہے کم از کم پیٹ بھر کر کھانا تو ملے گا‘‘
آخر کس نے اسے لکھنے پر آمادہ کیا کس چیز نے اسے اکسایا کہ وہ صفحہ قرطاس پر الفاظ بکھیرے دے اس کی کتاب کا ورق ورق پڑھنے سے قبل ہم اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں۔ ہیلڈر نے زندگی کی پہلی سانس کشمیر میں لی۔ چند سال کی تھی کہ اس کی ماں شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر گھر سے چلی گئی جاتے سمے اسے معصوم بیٹی کا بھی خیال نہیں آیا۔ وہ ماں کو یاد کر کے روتی تو باپ اسے بری طرح دھتکارتا اسے مارتا۔ معصوم ہیلڈر کی سمجھ میں کچھ نہ آتا وہ مار کھا کر بھی باپ کی گود میں سر رکھ دیتی۔ اس کی زندگی میں اس وقت پریشان کن موڑ آیا جب سوتیلی ماں نے گھر میں قدم رکھا۔ باپ کی زبان تلخ ہو گئی اور گھر میں اذیتوں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ سوتیلی ماں کے اصرار پر اس کا باپ ٹوٹے ہوئے خاندان کو کشمیر کی وادیوں سے نکال کر مغربی بنگال کے شہر ’’درگاپور‘‘ لے آیا جہاں باپ نے ہیلڈر کو ایک سکول میں داخل کروا دیا وہاں زندگی کے حسین ترین دنوں سے اس کی ملاقات ہوئی مگر ان دنوں کا ساتھ بہت مختصر تھا چھٹی جماعت کا امتحان پاس ہی کیا تھا کہ سکڑتے وسائل بگڑتے حالات اسے سکول سے دور لے گئے۔ باپ نے اکلوتی بیٹی کو بھی بوجھ سمجھا اور اپنے سے بھی زیادہ عمر کے مرد سے اس کی شادی کر دی۔ ہیلڈر دلہن بنی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس سمے اس نے اپنی ایک سہیلی سے کہا’’اچھا ہے میری شادی ہو رہی ہے کم از کم پیٹ بھر کر کھانا تو ملے گا‘‘ جس گھر میں افلاس کا ڈیرہ ہو وہاں کے بچے کھانے سے زیادہ اور کیا سوچ سکتے ہیں۔ چاہے اس کے اہتمام کے لئے انہیں قربا ن کیا جار ہا ہو لیکن رخصتی کے چند دن بعد ہی ہیلڈر کی زندگی میں پریشانیاں در آئیں۔ گھریلو ذمہ داریاں اس کے نازک کندھوں پر آن پڑیں اور شوہر کارویہ ظالمانہ ہو گیا شادی کے ایک ماہ بعد وہ حاملہ ہو گئی۔ تین سال میں تین بچوں کی ماں بن گئی۔ انہیں ہنستا کھیلتا کودتا دیکھ کر اس کی ڈولتی بجھتی آنکھوں میں پل بھر کو جگنو چمک اٹھتے پھر آس کی کم زور سی ڈور جو شوہر سے بندھی ہوئی تھی وہ بھی اس دن ٹوٹ گئی‘ جب ظالم شوہر نے ایک بھاری پتھر اس کے سر پر دے مارا صرف اس لئے کہ اس نے ہیلڈر کو گاؤں کے ایک مرد سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھااس حادثے نے اسے شوہر سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا جیٹھانی کو پتا چلا تو اس نے اسے سمجھایا کہ عورت مردکے سہارے سماجی قیود میں زندگی بسر کرتی ہے یہ غلطی مت کرنا لیکن ہیلڈر کے نزدیک یہ غلطی نہیں بلکہ غلطی کی درستگی تھی۔

haldar

’’ہم بدل گئیں مردوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی‘‘
2008ء میں دنیا کی پہلی خلاباز خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی ایران کی انوشہ انصاری نے اپنی آپ بیتی’’مائی ڈریم آف سٹارز‘‘ میں لکھاہے ’’میں دنیا بھر کی نوجوان لڑکیوں کو متاثر کرنا اور انہیں سبق دینا چاہتی ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے خوابوں سے پیچھے نہ ہٹیں اور مردوں کی ہٹ دھرمی سے خوفزدہ ہو کر گھر کی چاردیواری میں نہ بیٹھیں۔ ‘‘ حقیقت یہی ہے کہ مجبوریوں مسائل اور مشکلات کے ساتھ زندگی کا آغاز کر کے محنت صلاحیت اور بھرپور کوششوں سے خودکو منوا لینے والی خواتین ہمت نسواں کی سنہری داستانیں ہیں جو باور کررہی ہیں کہ آج کی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی پہچان بنانے اور مردوں پر بازی لے جانے کی صلاحیت اور جرات رکھتی ہے۔ بحرانوں سے نمٹنا خوب جانتی ہے اب تو خواتین کے مختلف پلیٹ فارم سے یہ آواز بلند ہور ہی ہے ’’ہم بدل گئیں مردوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی‘‘۔
یہ1999ء کا ذکر ہے کہ اس وقت ہیلڈرنے زندگی کی 25ویں سیڑھی پر قدم رکھا تھا شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے تین بچوں کو لے کر ٹرین میں سوارہوئی اور دہلی پہنچ گئی جہاں ایک کچی بستی میں جھونپڑی بنا کر اپنا ٹھکانا بنالیا اور ایسے گھروں کی تلاش میں نکل پڑی جہاں کچھ کام مل سکے لیکن اس سے چمٹے تین بچوں کو دیکھ کر کوئی اسے کام دینے کو آمادہ نہ ہوا ‘اس کی تلخ زندگی کے شب و روز گزرتے رہے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے تو وہ تڑپ جاتی پھر وقت کی تیز لہر اسے ’’گڑگاؤں‘‘ لے گئی جو بستی سے کچھ فاصلے پر تھا۔ خوش قسمتی سے وہاں اس ایک ایسے گھر میں کام مل گیا جنہوں نے اسے سرچھپانے کے لئے سرونٹ کوارٹر بھی دے دیا۔ یہ گھرعلم بشریات کے ریٹائرڈ پروفیسر پربودھ کمار کا تھا ہیلڈر کے ذمے گھر کی صفائی ستھرائی تھی اسے کام کرتے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن پرمورکمار نے اسے اپنے شیلف میں لگی کتابوں سے گردجھاڑنے کے بجائے دلچسپی سے ورق گردانی کرتے دیکھا۔ ان ے لئے یہ ایک حیران کن لمحہ تھا چند دن متواتر اسے خاموشی سے دیکھتے رہے وہ کبھی شیلف سے ایک کتاب نکالتی کبھی دوسری بالآخر پربودھ کمار نے ایک دن کچھ سوچتے ہوئے ہیلڈر کو شیلف میں سجی کتابوں سے دوستی کرنے کی اجازت دے دی۔ اس بات سے ہیلڈر بہت خوش ہوئی ۔ دوسرے دن پربودھ کمار نے اسے ایک قلم اور رجسٹر دیتے ہوئے کہا کہ اس پر اپنی زیست کی بابت لکھنا۔ پہلے تو ہیلڈر کی کچھ سمجھ نہیں آیا وہ گھبرا گئی لیکن پربودھ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ زندگی میں جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا اچھا یا برا اس رجسٹر پر اسی طرح لکھ دو کوئی اورہوتا تو شاید انکار کر دیتا لیکن ہیلڈر نے ہچکچاتے ہوئے پربودھ کمار کے ہاتھ سے قلم اور رجسٹر لے کر مضبوطی سے تھام لیا۔ اب اس کے شب و روز بدل گئے تھے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ سرونٹ کوارٹر میں چلی جاتی۔ ماضی کھنگالتے ہوئے جو باتیں یاد آتیں رجسٹر پر لکھتی جاتی۔ ایک ہفتے میں اس نے رجسٹر کے تین سو صفحات میں سے ساٹھ صفحات سیاہ کر دئیے۔ لکھتے سمے اسے ایسا محسوس ہوتاجیسے کسی خیر خواہ کے سامنے اپنا دکھ بیان کر رہی ہے اور جب اپنے لکھے کو پڑھتی تو آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہہ کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتے۔ پربودھ کمار نے اس کی تحریر پڑھی اور چند اوراق کی فوٹو کاپی کروا کر اپنے ایک پبلشر دوست کو بھجوا دئیے جس نے پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے کہا خاتون نے محرومیوں کی شکار ہندوستانی عورتوں کے کرب کی بڑی گرفت سے منظر کشی کی ہے۔ اسے یقیناً کتابی شکل میں شائع ہونا چاہئے۔ پربودھ نے مسودے میں جملوں کی ساخت درست کی۔ رموز و قافیہ پر نظر ڈالی اور پھر اسے پبلشر کے حوالے کر دیا ۔ 2001ء میں بنگلہ زبان میں’’اندھیرا اجالا‘‘ کے نام سے کتاب شائع ہوئی تو تہلکہ مچ گیا خصوصاً خواتین نے ایک دوسرے سے چھین چھین کر پڑھی اور گلے مل کر روئیں۔ 2002ء میں کلکتہ کے ایک پبلشر نے اس کا ہندی ترجمہ شائع کیا تو اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی شور مچ گیا۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ اگلے دو برس میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہو گئے۔ نقادوں نے اسے ایک ادبی تخلیق قرار دیتے ہوئے کہا’’اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مصنفہ نے زندگی کے روایتی ڈھب بڑی خوبصورتی سے قلم بند کئے ہیں۔ ان کھٹنائیوں کا ذکر کیاہے جن سے عورت سے گزرتی ہے ساتھ ہی مردوں کے منفی رویوں کو بھی عمدگی سے قلم بند کیا ہے جنہوں نے عورت کو ہمیشہ خود سے کم تر جانا۔2006ء میں کتاب کا انگریزی ترجمہ”A Life Less Ordinary” کے عنوان سے شائع ہوا تو نیویارک ٹائمزنے ہیلڈر کی تخلیق کو”Angela’s Ashes” کاہندوستانی ورژن قرار دیا۔ واضح رہے کہ 1996ء میں آئرس نژاد امریکی ادیب فرینک میکورٹ کی یاداشتیںAngela’s Ashesنے تہلکہ مچا دیاتھا۔2008ء میں ہیلڈر کی خود نوشت کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا۔ 2011ء کے آواخر تک اس کا ترجمہ21زبانوں میں شائع ہو چکا تھا۔

babyhalder

’’2001ء میں بنگلہ زبان میں ہیلڈر کی کتاب ’’اندھیرا اجالا‘‘شائع ہوئی تو تہلکہ مچ گیا خصوصاً خواتین نے ایک دوسرے سے چھین چھین کر پڑھی اور گلے مل کر روئیں‘ 2002ء میں کلکتہ کے ایک پبلشر نے اس کا ہندی ترجمہ شائع کیا تو اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی شور مچ گیا‘ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی‘ نقادوں نے اسے ادبی تخلیق قرار دیتے ہوئے کہا’’اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مصنفہ نے زندگی کے روایتی ڈھب بڑی خوبصورتی سے قلم بند کئے ہیں‘ 2011ء کے آواخر تک اس کا ترجمہ21زبانوں میں شائع ہو چکا تھا‘‘
ہیلڈر کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں‘اس کا بڑا بیٹا20 برس کا ہو چکا ہے اور پڑھ رہا ہے‘کتابوں سے ملنے والی رائلٹی کی بدولت اس نے اپنا گھر بھی بنا لیا ہے ‘لیکن وہ اپنے محسن پربود ھ کمارکی زندگی میں اس کے گھر میں ماسی بن کر ہی رہنے کا اراد ہ رکھتی ہے

مزید پڑھئے:دوران حمل غیر معمولی سمارٹنس سے حیران کرنے والی ماڈل کے ہاں بیٹے کی پیدائش

۔پہلی ہی کتاب سے بین الاقوامی سطح پر شہرت ملنے کے بعد ہیلڈر نے ایک بھارتی ٹی وی انٹرویو میں کہا میں آج بھی اپنے آپ کو ماسی سمجھتی ہوں۔ میں پربودھ کمار کا گھر اور اپنے ہاتھوں سے جھاڑوکبھی نہیں چھوڑوں گی لیکن اب میں لکھتی رہوں گی اس کے طفیل تو میں نے خودکو پہنچانا ہے۔



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…