اسلام آباد(نیوز ڈیسک)آج پوری دنیا میں ایٹمی تجربات کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر امن کے فروغ کے ساتھ ساتھ بدامنی کا باعث بننے والے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے اقدامات بھی اٹھانا ہے۔ تاہم ایٹمی طاقتیں ناصرف اپنے ہتھیاروں کو تلف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں بلکہ وہ اس وقت بھی سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں جس کا اندازہ اس امر سے بااسانی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کہ 90 فیصد سے زائد نیوکلیئر ہتھیاروں کے مالک صرف دو بڑے ملک ہیں جن میں 7500کے ساتھ روس اور 7200 کے ساتھ امریکہ شامل ہیں۔ ایٹمی تجربات کے خلاف منائے جانے والے عالمی دن کے حوالے سے مختلف ذرائع سے جو اعدادوشمار حاصل کئے ہیں اس کے مطابق دنیا میں آج بھی 10292 نیوکلیئر وار ہیڈ مختلف عسکری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال میں ہیں۔ انٹرنیشنل آرمڈ کنٹرول ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق 46 فیصد یعنی 4717 نیوکلیئر وارہیڈ امریکہ نے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نصب کر رکھے ہیں جبکہ 44 فیصد یعنی 4520 کے ساتھ روس دوسرے ،3 فیصد یعنی 300 کے ساتھ فرانس تیسرے ،2 فیصد یعنی 250 کے ساتھ چین چوتھے اور 2 ہی فیصد یعنی 225 کے ساتھ برطانیہ پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان 110کے ساتھ چھٹے، بھارت 100 کے ساتھ ساتویں، اسرائیل 80 کے ساتھ آٹھویں اور جنوبی کوریا 10 کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں 8 ایٹمی قوتیں ہیں تاہم اسرائیل نے کوئی ایٹمی تجربہ تو نہیں کیا لیکن وہ بھی بھرپور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا دنیا کا آٹھواں ملک ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے ناصرف خطے میں امن کی فضاء بڑی طرح متاثر ہوئی ہے بلکہ اس سے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ بھی پہلے سے تیز ہو چکی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بھارت کی خطے میں اجارہ داری پاکستانی ایٹمی صلاحیت کے باعث مدھم پر چکی ہے بھارت ہمیشہ پاکستان پر اپنی عسکری اور ایٹمی بالادستی قائم رکھنے کے لئے کوشش کر تارہا ہے خصوصا بھارت میں انتہا پسند حکومتیں پاکستان کوکچلنے کے خواب دیکھتی رہتی ہیں تاہم پاکستانی ایٹمی اور میزائل صلاحیت نے ہمیشہ بھارت کے مذموم اراداروں کو ناکام بنا یا اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان خطے میں بھارتی اجارہ داری کو ختم کرنے میں اہم ملک ثابت ہوا ہے۔عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوتی تعدادکو روکنے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے جس سے گزشتہ نصف عشرے کے دوران عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں 30 فیصد کمی ہوئی۔