کراچی(نیوزڈیسک)ایران سے پاکستان تیل اسمگل کیے جانے کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے، حجم اس قدر زیادہ ہے کہ وفاقی حکومت تخمینہ لگانے سے بھی قاصر ہے۔ صرف رواں سال 24ارب روپے کا ایرانی تیل پکڑا گیا ہے ۔ قومی خزانے کو بڑے نقصان کا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا۔ وفاقی حکومت نے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق صرف رواں سال کے پہلے 7ماہ میں پکڑے گئے ایرانی تیل کی مالیت ہے 24ارب روپے ہے۔ ایران سے کل کتنا تیل اسمگل ہو رہا ہے، حکام سمیت کوئی نہیں جانتا۔ پاک ایران بارڈر 730کلومیٹر طویل ہے اور اسمگلر اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جب کہ سمندر کے راستے بھی تیل اسمگل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایرانی تیل آتا ہے تقریبا آدھی قیمت پر اور پٹرول مافیا بیچتا ہے، صارف کو پوری قیمت پر، مگر قومی خزانے میں پٹرول پر ٹیکس یا لیوی کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں جاتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف چیک پوسٹیں بھی ہیں، لیکن دونوں جانب کی سیکیورٹی فورسز کو اسمگلرز کے یہ آئل ٹینکرز نہ جانے کیوں نظر نہیں آتے اور سمندر کی حدود میں بھی انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق ایرانی تیل کی کوالٹی بھلے کچھ کم سہی، مگر یہ پاکستان بھر میں دستیاب ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ بارڈر پر قائم 252پٹرول پمپ گرا دیے گئے ہیں، تاکہ وہاں اسمگل شدہ پٹرول ذخیرہ نہ کیا جا سکے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق آج تک اسمگلرز کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں، صرف 52اور ان کا ٹرائل ہوا ہے محض صرف 5کیسز میں۔ واضح رہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تیل کی سمگلنگ ایرانی اورپاکستانی حکام کے علم میں آئے بغیر ناممکن ہے اور ایران کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیرقانونی طورپر تیل فروخت کرنا بند کرے۔تیل سمگلرز کو فروخت کیاجاتا ہے تو ہی پاکستان سمگل ہوتاہے اگر ایران سمگلرز کو تیل کی فروخت بند کردے تو یہ قصہ بھی ختم ہوجائے۔