اتوار‬‮ ، 06 اکتوبر‬‮ 2024 

دہشتگردی میں موبائل فونز کے بجائے” وی اوآئی پی “کااستعمال

datetime 20  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والی پوچھ گچھ کے دوران ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کے 37 کیسز میں ملوث تھے۔یہ جے آئی ٹی قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس کےتمام اداروں کے اراکین پر مشتمل ہے۔دہشت گردی کے ان کیسز میں اپریل کے دوران جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل اور امریکی شہری ڈیبرا لوبو پر حملہ، انسانی حقوق اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک سبین محمود کا قتل، پاکستان رینجرز کے برگیڈیئر باسط پر حملہ، پولیس اور رینجرز پر کئی حملے، حیدرآباد اور کراچی میں بینک ڈکیتیاں، آرام باغ کے علاقے میں بوہری مسجد پر بم دھماکا، نارتھ ناظم آباد میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کی شاخ پر کریکر حملہ، بوہری برادری کے بشیر سیف الدین کا قتل اور کئی دوسرے قتل، اغوا اور عسکریت پسند حملوں کے کیسز شامل ہیں۔ملزمان کے خلاف دستیاب ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس جرم میں استعمال ہونے والے ہتھیار برآمد کرلیے گئے تھے اور فارنسک ماہرین کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والی باقیات کے ساتھ ان کی مماثلت پائی گئی تھی۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ چار موٹرسائیکلیں اور دو کاریں اس حملے میں استعمال ہوئیں، جنہیں ضبط کرلیا گیا ہے۔مزید یہ کہ کراچی میں دیگر گیارہ حملوں میں استعمال ہونے والی گولیاں بھی ان ہتھیاروں سے فائر کی گئی تھیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے لٹریچر کی چھپائی کا انداز اور صفورا گوٹھ حملے کے جائے وقوعہ، ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر حملہ اور نجی اسکولوں پر دو گرینیڈ حملے کے بعد ملنے والے پمفلٹ کی چھپائی کا انداز یکساں تھا۔موبائل فونز کے بجائے وی او آئی پی کے استعمال کے علاوہ ملزمان نے خفیہ ناموں کا استعمال کیا تاکہ انٹیلی جنس اداروں کے ریڈار کی زد میں آنے کی صورت میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق ’’تمام دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھا مالی پس منظر رکھتے ہیں، اور سوشل میڈیا نیٹ ورک اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر ہیں۔‘‘اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ پندرہ افراد کے اس گروپ کے صرف پانچ ’جرائم میں متحرک‘ ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔حکام نے ان کے قبضے سے چھ گرینیڈ، چار موبائل فونز، پچاس سمز، ایک پولیس یونیفارم اور نصف کلو زہر بھی برآمد کیا۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ گروپ کا ہر ایک رکن اپنی جیب میں زہر کا ایک پیکٹ رکھتا تھا، تاکہ کسی غیرمطلوب صورتحال خاص طور پر ممکنہ گرفتاری کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’’خوش قسمتی سے ہم نے انہیں اس زہر کا استعمال کرکے خود کو ہلاک کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔



کالم



کوفتوں کی پلیٹ


اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…