پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

دہشتگردی میں موبائل فونز کے بجائے” وی اوآئی پی “کااستعمال

datetime 20  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والی پوچھ گچھ کے دوران ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کے 37 کیسز میں ملوث تھے۔یہ جے آئی ٹی قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس کےتمام اداروں کے اراکین پر مشتمل ہے۔دہشت گردی کے ان کیسز میں اپریل کے دوران جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل اور امریکی شہری ڈیبرا لوبو پر حملہ، انسانی حقوق اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک سبین محمود کا قتل، پاکستان رینجرز کے برگیڈیئر باسط پر حملہ، پولیس اور رینجرز پر کئی حملے، حیدرآباد اور کراچی میں بینک ڈکیتیاں، آرام باغ کے علاقے میں بوہری مسجد پر بم دھماکا، نارتھ ناظم آباد میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کی شاخ پر کریکر حملہ، بوہری برادری کے بشیر سیف الدین کا قتل اور کئی دوسرے قتل، اغوا اور عسکریت پسند حملوں کے کیسز شامل ہیں۔ملزمان کے خلاف دستیاب ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس جرم میں استعمال ہونے والے ہتھیار برآمد کرلیے گئے تھے اور فارنسک ماہرین کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والی باقیات کے ساتھ ان کی مماثلت پائی گئی تھی۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ چار موٹرسائیکلیں اور دو کاریں اس حملے میں استعمال ہوئیں، جنہیں ضبط کرلیا گیا ہے۔مزید یہ کہ کراچی میں دیگر گیارہ حملوں میں استعمال ہونے والی گولیاں بھی ان ہتھیاروں سے فائر کی گئی تھیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے لٹریچر کی چھپائی کا انداز اور صفورا گوٹھ حملے کے جائے وقوعہ، ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر حملہ اور نجی اسکولوں پر دو گرینیڈ حملے کے بعد ملنے والے پمفلٹ کی چھپائی کا انداز یکساں تھا۔موبائل فونز کے بجائے وی او آئی پی کے استعمال کے علاوہ ملزمان نے خفیہ ناموں کا استعمال کیا تاکہ انٹیلی جنس اداروں کے ریڈار کی زد میں آنے کی صورت میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق ’’تمام دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھا مالی پس منظر رکھتے ہیں، اور سوشل میڈیا نیٹ ورک اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر ہیں۔‘‘اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ پندرہ افراد کے اس گروپ کے صرف پانچ ’جرائم میں متحرک‘ ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔حکام نے ان کے قبضے سے چھ گرینیڈ، چار موبائل فونز، پچاس سمز، ایک پولیس یونیفارم اور نصف کلو زہر بھی برآمد کیا۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ گروپ کا ہر ایک رکن اپنی جیب میں زہر کا ایک پیکٹ رکھتا تھا، تاکہ کسی غیرمطلوب صورتحال خاص طور پر ممکنہ گرفتاری کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’’خوش قسمتی سے ہم نے انہیں اس زہر کا استعمال کرکے خود کو ہلاک کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…