پیر‬‮ ، 05 مئی‬‮‬‮ 2025 

دہشتگردی میں موبائل فونز کے بجائے” وی اوآئی پی “کااستعمال

datetime 20  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والی پوچھ گچھ کے دوران ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کے 37 کیسز میں ملوث تھے۔یہ جے آئی ٹی قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس کےتمام اداروں کے اراکین پر مشتمل ہے۔دہشت گردی کے ان کیسز میں اپریل کے دوران جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل اور امریکی شہری ڈیبرا لوبو پر حملہ، انسانی حقوق اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک سبین محمود کا قتل، پاکستان رینجرز کے برگیڈیئر باسط پر حملہ، پولیس اور رینجرز پر کئی حملے، حیدرآباد اور کراچی میں بینک ڈکیتیاں، آرام باغ کے علاقے میں بوہری مسجد پر بم دھماکا، نارتھ ناظم آباد میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کی شاخ پر کریکر حملہ، بوہری برادری کے بشیر سیف الدین کا قتل اور کئی دوسرے قتل، اغوا اور عسکریت پسند حملوں کے کیسز شامل ہیں۔ملزمان کے خلاف دستیاب ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس جرم میں استعمال ہونے والے ہتھیار برآمد کرلیے گئے تھے اور فارنسک ماہرین کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والی باقیات کے ساتھ ان کی مماثلت پائی گئی تھی۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ چار موٹرسائیکلیں اور دو کاریں اس حملے میں استعمال ہوئیں، جنہیں ضبط کرلیا گیا ہے۔مزید یہ کہ کراچی میں دیگر گیارہ حملوں میں استعمال ہونے والی گولیاں بھی ان ہتھیاروں سے فائر کی گئی تھیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے لٹریچر کی چھپائی کا انداز اور صفورا گوٹھ حملے کے جائے وقوعہ، ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر حملہ اور نجی اسکولوں پر دو گرینیڈ حملے کے بعد ملنے والے پمفلٹ کی چھپائی کا انداز یکساں تھا۔موبائل فونز کے بجائے وی او آئی پی کے استعمال کے علاوہ ملزمان نے خفیہ ناموں کا استعمال کیا تاکہ انٹیلی جنس اداروں کے ریڈار کی زد میں آنے کی صورت میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق ’’تمام دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھا مالی پس منظر رکھتے ہیں، اور سوشل میڈیا نیٹ ورک اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر ہیں۔‘‘اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ پندرہ افراد کے اس گروپ کے صرف پانچ ’جرائم میں متحرک‘ ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔حکام نے ان کے قبضے سے چھ گرینیڈ، چار موبائل فونز، پچاس سمز، ایک پولیس یونیفارم اور نصف کلو زہر بھی برآمد کیا۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ گروپ کا ہر ایک رکن اپنی جیب میں زہر کا ایک پیکٹ رکھتا تھا، تاکہ کسی غیرمطلوب صورتحال خاص طور پر ممکنہ گرفتاری کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’’خوش قسمتی سے ہم نے انہیں اس زہر کا استعمال کرکے خود کو ہلاک کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شاید شرم آ جائے


ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…