جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں پابندی کا شکار ہونیوالی سیاسی جماعتیں

datetime 1  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوزڈیسک) گزشتہ صدی میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں درجنوں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگیں ، ان میں بھارت، امریکا اور برطانیہ ودیگر ممالک شامل ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات سے انکشاف ہواکہ ، جن سیاسی جماعتوں پر قدغنیں لگیں ان میں وہ جماعتیں بھی شامل تھیں جن پر عدا لتو ں کی جانب سے پابندیاں لگیں یا مختلف وجوہات کی بناء پر ان کے طاقتور حریفوں نے ان پر پابندی عائد کرادیں۔ ان وجو ہا ت میں ریاست مخالف ایجنڈے کی پیروی ، دشمن ممالک سے اپنے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کیلئے مالی تعاون حاصل کرنا، دور حاضر کے مطلق العنان حکمرانوں کو چیلنج کرنا، جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنا اور انتخابی قوا نین کی خلاف ورزی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سیکورٹی خطرہ قرار دیئے جانے کے باعث پابندیاں لگیں۔ تا ہم کچھ کیسز میں پابندی کا شکار ہونیوالی سیاسی جماعتوں کو سیاسی انتقام کا بھی نشانہ بنا یا گیا، کچھ ایسی جماعتیں بھی تھیں کہ جب وہ دوبارہ منظر عام پر آئیں تو انہیں عوامی حمایت کے حصول میں زیادہ مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑا، ان میں نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس شامل ہے، ایسی ہی جماعتیں جوکہ مختلف نام کے ساتھ دوبارہ منظر عام پر آئیں ان میں پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی شامل ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کودوبارہ قبو ل کیے جانے میں شاید ان کے نظریات نے خاصہ اہم کردار ادا کیا جنہیں پابندی عائد ہونے کے بعد بحال کیا گیا۔ 1958 میں ملک کے فوجی حکمران ایوب خان کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کے پاکستان میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ، وہ بھی تمام آمروں کی طرح اپوزیشن سے نفرت کرتے تھے۔ مولانابھاشانی کی سربراہی میں کام کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی(این اے پی) کو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے نظریئے کی جماعت سمجھا جاتا تھا، اسی لیے سب سے پہلے اسی جماعت نے مارشل لاء حکومت کا عتاب سہنا پڑا۔ اخبارات کے مطابق این اے پی پر کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد اس کے ایک رہنما حسن ناصر کو مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں قتل کردیا گیا۔ 1962میں ایوب خان نے سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دیدی اور این اے پی دوبارہ بحال ہوگئی لیکن اس میں جی ایم سید گروپ موجود نہیں تھا۔ اس کے بانی مولانا بھاشانی کی جانب سے متنازع صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ کے مقابلے میں ایوب خان کی حمایت کا فیصلہ کرنے پر 1967میں این اے پی منقسم ہوگئی، اس کے رہنماؤں کی بڑی تعداد نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مغربی پاکستان میں سابقہ سوویت یونین کے حامی عبدالولی خان این اے پی کے سربراہ تھے، لیکن ان کی جماعت پر یحییٰ خان کی جانب سے 1971میں پابندی عائد کردی گئی۔ یادرہےکہ 1971میں سانحہ سقوط ڈھاکا کے بعد این اے پی نے این ڈبلیو ایف پی(اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان میں زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے مخلوظ حکومتیں قائم کیں، میر غوث بخش بزنجو کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا جبکہ سردار اختر مینگل کو صوبے کا پہلا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ این ڈبلیو ایف پی(اب خیبرپختونخوا) میں مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا اور ارباب سکندر خان کو گورنر مقرر کیا گیا۔ لیکن 1973میں بھٹو کی جانب سے بلوچستان حکومت کو ختم کردیا گیا ، جس وجہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات بتائے گئے، اس وقت اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے سے ہتھیار برآمد ہوئے ساتھ ہی نواب اکبر بگٹی کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دولخت کرنے کا منصوبہ لندن کا بھی انکشاف ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے مزید یہ الزامات عائد کیے گئے کہ بلوچستان اور این ڈبلیو ایف پی(اب خیبرپختونخوا) کی حکومتیں دراصل پاکستان سے آزادی حاصل کرنےکیلئے کام کررہی تھیں ۔ بلوچستان حکومت کے خاتمے کے بعد این ڈبلیو ایف پی(اب خیبرپختونخوا) کی حکومت نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دیدیا۔8 فروری 1975کو ولی خان کی سربراہی میں کام کرنے والے این اے پی کے دھڑے کو دوبارہ کام کرنے سے روک دیا گیا ، اس وقت یہ کام ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے کیاگیا اور عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیربخش مری ودیگر رہنماؤں کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ این اے پی پر پابندی بھٹو کے قریبی ساتھی حیات خان شیر پاؤ کے قتل کے بعد عائد کی گئی ، ولی خان پر ان کے قتل کا الزام عائد کرکے انہیں ہتھکڑیاں لگوادی گئیں ، بھٹو کی حکومت نے ولی خان کو 1976میں حیدرآباد سازش کیس میں بھی ملوث کیا۔ وہ اور انکے کئی ساتھی بشمول امیر زادہ خان، گردیزی اور انقلابی شاعر گل خان ناصر اور حبیب جالب وغیرہ حیات شیرپاؤ کے قتل کے الزام سے بری ہوگئے تھے۔ حسب توقع ملکی عدالتوں کی جانب سے بھی این اے پی پر پابندی کو برقرار رکھا گیا ، یہ جماعت 1976میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی(این ڈی پی)بن گئی اور اس میں اختلافات کے باعث اس میں سے اے این پی معرض وجود میں آئی۔ مارچ 2015میں برطانوی سیاسی جماعت ’دی بیئر ، بیسی، اینڈ کرمپٹ پارٹی ‘ کو غیر مناسب نام کے باعث انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ میں تمباکو کو عامیانہ زبان میں ’بیسی‘ کہتے ہیں، جبکہ ’کرمپٹ‘ ایک کیک کو کہتے ہیں۔ پارٹی کے منشور میں شراب پر ڈیوٹی کی کمی اور پبس میں سگریٹ نوشی پابندی کو واپس لینا اور بینکوں سے کم رقوم نکلوانے پر عائد فیس کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ پارٹی کے نامناسب نام کے باعث بر طا نو ی الیکشن کمیشن اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے ۔ پابندی کا شکار ہونیوالی برطانوی پارٹی کے رہنما ریہال نے برطانوی نظام کو غیر منصفانہ اور متعصبانہ قرار دیا تھا ۔سنہ 2000 کے بعد ا ن تنظیموں کی فہرست مرتب کرنا شروع کی جس پر سرکاری طور پر پابندیاں عائد کی گئیں تھیں او ر عوام پران کی رکنیت حاصل کرنے پر بھی پابندی تھی ، عوام نہ ہی ان تنظیموں کی حمایت کرسکتی ہیں اور ایسے کپڑے بھی زیب تن نہیں کرسکتے جس پر ان تنظیموں کے علامتی نشانات آویزاں ہوں۔ برطانیہ میں 44بین الاقوامی تنظیموں پر پابندی عائد ہے۔ بھارتی کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندگی نے 26کانگریس مخالف سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی، جن میں راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس)اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں، یہ اقدام انہوں نے 1975میں لگائی جانیوالی ایمرجنسی کے دوران اٹھایا تھا۔ بھارتی ہائیکورٹ کی جانب سے اندرا گاندھی کا لوک سبھا کی نشست سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد انہوں نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی۔ انہوں نے ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن اس نے بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس ایمرجنسی کے دوران 1ہزار سے زائد سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کیا گیا۔ امریکا، اسپین، جرمنی، جنوبی کوریا، ایران، جنوبی افریقا، چین، روس ، چیکوسلواکیا، تھائی لینڈ، سابق یوگوسلاویہ، فن لینڈ، ترکی، برونائی، بھوٹان، چاڈ او ر ازبکستان وغیرہ میں گزشتہ صد ی کے دوران سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی گئیں ۔ کمیونسٹ پارٹی پر امریکا اور جرمنی میں بھی پابندی عائد کی گئی، امریکی سپریم کورٹ نے اس نام کی جماعت کو امریکا کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا۔ مارچ 2011 میں اسپین کی سپریم کورٹ نے ’سورتو‘ نامی ایک نئی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی جس کی وجہ اس کا (ای ٹی اے) نامی ایک سیاسی جماعت کے عسکری گروہ کا تسلسل ہونا تھا۔ جنوبی کوریا میں ایک کمیونسٹ حامی تنظیم ’ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘ پرریاستی قوانین کے تحت پابندی عائد کردی گئی لیکن وہ خفیہ طور پر کام کرتی رہی ۔ چین میں 1988میں ’چائنا ڈیمو کر یٹک پارٹی‘ تشکیل دی گئی جس کا مقصد جمہوری اور بلدیاتی اصلاحات تھا، اس جماعت پرچین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے فوری طور پر پابندی عائد کردی گئی اور بیجنگ میں اسکے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا۔ اسی طرح ایک اور جماعت ’ نیو ڈیموکریٹک پارٹی آف چائنا‘ پر بھی پابندی عائد کی گئی ۔ سابق سوویت یونین میں1992میں نیشنل بولشیوک پارٹی قائم کی گئی، جسے ماتحت عدلیہ نے 2005میں تحلیل کرنے کا حکم صادر کیا اور پھر روس کی سپریم کورٹ نے اگست 2005میں اس پابندی کو کالعدم قرار دیدیا۔ لیکن، نومبر 2005ء میں، روس کی اعلیٰ ترین عدالت نے نیشنل بولشیوک پارٹی پر پابندی برقرار رکھی اور اس کیلئے وجہ یہ بتائی کہ اس جماعت نے یہ کہہ کر سیاسی جماعتوں کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ اس طرح رجسٹر ہونے والی جماعت نہیں ہے۔ ستمبر 1974 سے لے کر جنوری 1985 تک سرگرم ’’نیو کمیونسٹ پارٹی آف دی سوویت یونین‘‘ کو بھی جنوری 1984ء میں خود ساختہ تحلیل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن کئی مبصرین کی رائے تھی کہ اسے ’’شائستگی‘‘ کے ساتھ کالعدم قرار دیا گیا۔ چیکوسلاواکیہ میں، ’’جرمن نیشنلسٹ پارٹی‘‘ اور ’’جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی‘‘پر 1933ء میں اس لئے پابندی عائد کر دی گئی کہ ان کی سرگرمیاں ریاست مخالف تھیں۔ ’’جرمن نیشنلسٹ پارٹی‘‘ 1919ء میں قائم ہوئی تھی اور یہ چیکوسلاواکیہ کے ایک حصے میں جرمن بولنے والی آبادی کی نمائندگی کرتی تھی۔ پابندی سے قبل، اس کے 1024 مقامی چیپٹرز تھے اور مئی 1932ء تک اس کے ارکان کی تعداد 61 ہزار تھی۔ تھائی لینڈ میں، ’’تھائی رک پارٹی‘‘ پر ملک کی آئینی عدالت نے 2007ء میں باضابطہ طور پر پابندی عائد کردی، اور اس کی وجہ 2006ء کے انتخابات میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ 2001ء سے 2006ء تک، یہ جماعت اس وقت کے وزیراعظم اور پارٹی کے بانی تھاکسن شینا وترا کی زیر قیادت حکمران جماعت تھی۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں وزیراعظم تھاکسن کی جلاوطنی کے 8 ماہ بعد، 30 مئی 2007ء کو پارٹی کو آئینی ٹریبونل نے تحلیل کردیا اور پارٹی کے 111 ارکان کو آئندہ پانچ سال تک ملکی سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا۔ یوگوسلاویہ میں، ’’یوگوسلاو ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کو حکمران کمیونسٹ پارٹی نے 1945ء میں نا اہل قرار دیدیا۔ یہ لبرل سیاسی جماعت جون 1918 میں وجود میں آئی اور 1920ء میں ہونے والے ملک کے پہلے قومی انتخابات میں اس نے اکثریتی ووٹ حاصل کیے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، یوگوسلاو ڈیموکریٹک پارٹی نے 1945ء میں کمیونسٹ زیر انتظام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے اسے طاقتور اور حکمران کمیونسٹوں کے غیص و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا، کچھ کو مار دیا گیا جبکہ کچھ کو طویل عرصہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ فن لینڈ میں، سوشلسٹ ورکرز پارٹی پر 1923ء میں پابندی عائد کر دی گئی اور اس کے 27 ارکان پارلیمنٹ کو جیل بھیج دیا گیا ۔ اس پارٹی کے پیچھے کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف فن لینڈ ہی بطور مددگار قوت موجود تھی۔ جرمنی میں، سوشلسٹ امپیریل پارٹی کے خلاف 1951ء میں عدالت کو کافی شواہد موصول ہوئے کہ یہ جماعت نازی نظریات کی حامل ہے۔ شواہد کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ یہ جماعت طے شدہ جمہوری اصولوں اور آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔ عدالت نے پارٹی کو تحلیل کرد یا اور اس کے اثاثے ضبط کرنے کے علاوہ پارٹی پر کسی دوسری شکل میں از سر نو تشکیل پر بھی پابندی عائد کردی۔ عدالت نے اسمبلیوں میں موجود پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی رکنیت بھی ختم کردی۔ کمیونسٹ پارٹی کے کیس میں، وفاقی حکومت نے پارٹی کی آئینیت کو 1951 میں چیلنج کیا اور اس کیلئے یہ وجہ بتائی گئی کہ اس نے جرمنی کے اتحاد میں رخنہ ڈالا اور آزادی اظہار اور آزادی وابستگی کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔ چار سال بعد، عدالت نے حکومت کی بتائی گئی وجوہات کو منظور کیا اور پارٹی کا بوریا بستر گول کردیا۔ (حوالہ پال فرانز کا تحقیقی مقالہ: غیر آئینی اور کالعدم سیاسی جماعتیں: جرمن اور امریکی تقابلی جائزہ) ترکی میں کرد قوم پرست سیاسی جماعت ’’پیپلز ڈیموکریسی پارٹی‘‘ پر مارچ 2003ء میں ترک آئینی عدالت نے مبینہ ریاست مخالف منصوبوں کے الزامات کے تحت پابندی عائد کردی۔ یہ پارٹی مئی 1994ء میں قائم ہوئی تھی۔ ایک اور کرد نواز ترک جماعت ’’پیپلز لیبر پارٹی‘‘ پر جولائی 1993ء میں اس کے قیام کے تین سال بعد ہی کالعدم قرار دیدیا گیا کیونکہ یہ جماعت کھل کر کرد ثقافت اور سیاسی حقوق کا پرچار کر رہی تھی۔ 1948 سے 1954 کے درمیان، کالعدم قرار دیے جانے سے قبل، نیشن پارٹی آف ترکی کے متعلق خبریں اور سرخیاں اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ اسی طرح ڈیموکریٹک سوسائٹی پارٹی آف ترکی پر 2009 میں ملک کی آئینی عدالت نے پابندی عائد کردی۔ پارٹی پر الزام تھا کہ یہ جماعت ملک اور قوم کے اتحاد کے خلاف سرگرمیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ ایک اور ترک جماعت ’’ورچو پارٹی‘‘ پر سیکولر شقوں کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت عدالت نے جون 2001 میں پابندی عائد کردی۔ دیگر ملکوں کے مقابلے میں، ترکی میں جن سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں فوجی حکومتوں کے بعد سیاسی افراتفری اور تبدیلیاں زیادہ وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ برونائی میں، برونائی پیپلز پارٹی پر اس کے قیام کے 6 سال بعد یعنی 1962 میں پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ اس کے منشور میں اختیارات بادشاہ سے لے کر عوام کو منتقل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ بھوٹان میں، بھوٹان پیپلز پارٹی پر جنوری 2008 میں ملک کے الیکشن کمیشن نے دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزام کے تحت پابندی عائد کردی۔ 1990 میں قائم ہونے والی یہ جماعت فی الوقت نیپال میں جلاوطنی میں کام کر رہی ہے۔ یہ بھوٹان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے بادشاہت کے خلاف ستمبر 1990 میں ملک گیر ریلیاں نکالی تھیں۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پرتشدد واقعات ہوئے تھے اور اس طرح حکومت کیلئےا س پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی راہ ہموار ہوئی۔ 2001 میں پارٹی کے بانی آر کے بوڈاتوکی کو مشرقی نیپال میں ہلا کر دیا گیا۔ چاڈ میں، ’’نیشنل یونین فار انڈیپینڈنس اینڈ ریوولیوشن‘‘1984 سے 1990 کے درمیان حکمران جماعت تھی لیکن جانشین پارٹی نے اس کا بوریا بستر گول کردیا۔ ازبکستان میں برلک پارٹی اور ایرک پارٹی پر 1990 کے اوائل میں میں پابندی عائد کرد ی گئی۔ یہ جماعتیں رجسٹریشن کی باضابطہ ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہیں۔ اگرچہ ایرک پارٹی کو کسی طرح 1994 میں بحال کر دیا گیا لیکن برلک پارٹی بنیادی طور پر 1989 میں ازبک دانشوروں اور لکھاریوں کی جماعت تھی۔ ایران میں، مسلم پیپلز ریپبلک پارٹی یا پھر اسلامک پیپلز ریپبلکن پارٹی کی مدت بھی چھوٹی ثابت ہوئی۔ یہ جماعت شیعہ جماعت تھی جو 1979 میں انقلاب کے دور میں وجود میں آئی لیکن جلد ہی 1980 میں اس پر پابندی عائد کردی گئی کیونکہ اس کی آراء آیت اللہ خمینی سے متصادم تھیں۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی افریقن نیشنل کانگریس پر ایمرجنسی کو وجہ قرار دیتے ہوئے اپریل 1960 میں پابندی عائد کردی گئی۔ پارٹی کے رہنمائوں پر الزام عائد کیا گیا وہ سوویت یونین اور کیوبا سے عسکری معاونت حاصل کر رہے ہیں۔ 1950ء میں چھاپے کے دوران گرفتاری کے نتیجے میں نیلسن منڈیلا سمیت پارٹی کے تقریباً 156 افراد پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور 105 افریقی، 21 بھارتی، 23 گورے اور 7 دیگر رہنمائوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس کیس کا مرکزی ٹرائل 1961ء تک جاری رہا تاوقتیکہ تمام افراد بے گناہ قرار دیدیئے گئے لیکن کچھ ملزمان کو 1964 میں دوبارہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔ اگرچہ منڈیلا اور ان کے ہم خیال جنوبی افریقی لوگوں کے ذہنی کرب کا سلسلہ 1991 میں سوویت یونین کے سقوط پر ختم ہوگیا لیکن بین الاقوامی دبائو میں آ کر جنوبی افریقی صدر ڈی کلرک نے افریقن نیشنل کانگریس کو بحال کردیا اور انہیں نیلسن منڈیلا کو رہا کرنا پڑا جن کی قیادت میں ملک میں اس جماعت نے پہلے جمہوری انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…