اسلام آباد (نیوزڈیسک) قومی اسمبلی میں منگل کو حکومت کی جانب سے فنانس بل 2015-16کثرت رائے سے منظور تو کر لیا گیا تاہم بجٹ کی منظوری کے حوالے سے یہ واقعہ منفرد ہے کہ اس وقت نہ تو قائد ایوان وزیراعظم نوازشریف اور نہ ہی قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان ایوان میں موجود تھے جبکہ بجٹ کی منظوری کے وقت وزرا کی بڑی تعداد بھی ایوان سے غیر حاضر تھی ۔ موجود وزرا کی تعداد8سے زیادہ نہیں تھی۔ اپوزیشن کے ارکان کو اس موقع پر کارروائی کا حصہ بنانے کیلئے ایوان میں لانے کی حکومتی کوششیں کسی طور بھی بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ا سپیکر ایاز صادق نے حکومت اور اپوزیشن جماعت کے پارلیمانی لیڈروں کو اپنے چیمبر میں مذاکرات کیلئے پندرہ منٹ کیلئے اجلاس کی کارروائی موخر کی تھی لیکن 30منٹ کے دورانیے پر محیط مذاکرات کا میاب نہ ہو سکے اس دوران خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کی اپنے ارکان سے مشاورت کیلئے اسپیکر چیمبر سے آمدورفت جاری رہی۔ اپوزیشن کے ارکان کی عدم موجودگی میں نماز ظہر کے بعد جب اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر نے ایک کوشش یا اتمام حجت کے طور پر پارلیمانی روایات کے تقاضے پورے کرنے کیلئے وزیراطلاعات پرویز رشید کو ہدایت کی وہ اپوزیشن کے ارکان کو منانے کی کوشش کریں۔ ہم اجلاس کی کارروائی شروع نہیں کرتے اور انتظار کریں گے اور وزیر مملکت آفتاب شیخ کو بھی ہمراہ لے جائیںذرا وزن بڑھ جائے گا۔ جب پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شگفتگی سے کہا کہ اگر وزن ہی بڑھانا ہے تو پھر ہمارے پاس وزیر تجارت خرم دستگیر بھی موجود ہیں ان کو بھیج دیں (واضح رہے کہ خرم دستگیر خاصے تنومند ہیں) جس پر سپیکر نے کہا کہ نہیں وزن کچھ زیادہ ہی بڑھ جائیگا۔ تقریباً دس منٹ انتظار کے بعد جب وزراء واپس نہیں آئے تو سپیکر نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے کہا کہ آپ جائیں اور تازہ ترین صورتحال دیکھیں اور اگر اپوزیشن واپس نہیں آرہی تو کم از کم اپنے وزرا ءکو تو واپس لے آئیں اور پھر ازراہ تفن پانی و بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ان کے بعد آپ تیار رہیں۔احسن اقبال کی واپسی میں بھی تاخیر ہوئی تو اسحاق ڈار نے کہا جناب سپیکر میرا خیال ہے کہ اپوزیشن آج آرام کے موڈ میں ہےکیونکہ 20منٹ ہو چکے ہیں ہم کب تک ان کا انتظار کریں گے۔ کچھ ہی دیر بعد ، چاروں وزرا ءواپس آگئے۔ پرویز رشید نے خورشید شاہ سے ملاقات کی ، تفصیلات بیان کیں جس کے بعد قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی عدم موجودگی میں بجٹ اجلاس پر کارروائی ہو ئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور بجٹ منطور کر لیا گیا۔