اگرچہ یہ تمام خبری سازشی آراء پر مبنی تھیں کہ کیاشعیب شیخ کے پیچھے ریاض ملک ،داوﺅد ابراھیم یا آئی ایس آئی ہے ؟ جس وقت اس موضوع پر نیوز روم، پریس کلب اور ریستورانوں میں باتیں ہورہی تھیں تو ایک امریکی صحافی نے ان تمام سازشی آراءکو سن کر اس خبر پر تحقیق کی، اور ایک ایسی ایکسکلوسو خبر کے ساتھ آئے جوکہ شاید اس عشرے کی سب سے بڑی خبر ہو۔ ہمارے صحافیوں نے بھی گزشتہ کچھ سالوں میں کئی بڑی خبریں دیں ہیں ، اور جس میں انہیں زیادہ خطرہ بھی درپیش تھا اور کچھ صحافی اپنے کام کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر بھی یہ ایک بڑی خبر ہے اور اس کے آئی ٹی صنعت اور میڈیا پر دورس نتائج مرتب ہوں گے۔ جعلی ڈگریوں کے معاملے نے پاکستان اور ملک سے باہر لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ جنہوں نے یہ ڈگریاں جاری کیں انہیں قانون کی گرفت کا سامنا ہے لیکن جو لوگ غیر قانونی طریقے سے یہ ڈگریاں حاصل کررہے تھے ، ان کی جانب بھی ایک اخلاقی سوال کھڑا ہوتا ہے۔ میرے مطابق جو بھی اس کاروبار سے منسلک تھے انہیں اس غیر قانونی کام کی وجہ سے ذمہ دارٹھہرایا جانا چاہیے ، لیکن جو لوگ یہ ڈگریاں حاصل کررہے تھے وہ بھی معصوم نہیں ہیں۔ ڈیکلن والش اس وقت بھی اس خبرپر تحقیقات کررہے تھے جب ان سے 48 گھنٹوں میں پاکستان سے نکل جانے کا کہا گیا۔ نیویارک ٹائمز کی مکمل ادارتی مدد یا متاثرین اور ’ اندرونی ذریعے‘ کی مدد کے بغیر ان کےلیے اس خبر پر کام کرنا اور درست معلومات جمع کرنا اور دستاویزات حاصل کرنا ناممکن تھا۔ 2008کے انتخابات کے جعلی ڈگریوں کے معاملے نے پاکستانی سیاستدانوں کو پہلی مرتبہ متاثر کیا تھااور وزارء سمیت کئی ارکان اسمبلی اپنے عہدوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے ، لیکن سب ہی ’ جعلی ڈگریوں ‘ کی اصل خبر سے چوک گئے۔ ’پہلے خبر حاصل کریںلیکن پہلے اس کی تصدیق کرلیں‘ یہ ایک مشہور مقولہ اور شاید یہ اس بات کی وجہ ہے کہ ڈیکلن والش کو اس خبر کی تصدیق کےلیے اتنا وقت کیوں لگا۔ ہم سب یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم بے قصور رہتا ہے اور میڈیا کو ملزم کےاس حق کا احترام کرنا چاہیے تاکہ وہ مقدمے کا دفاع کرسکے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں