کراچی(نیوزڈیسک) حکومت سندھ نے حیسکو اور سیپکو کے بجلی بقایاجات اس وقت تک ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب تک وفاقی وزارت برائے پانی و بجلی شمسی اور ونڈ پاور منصوبوں کی تنصیب پر پابندی کے متعلقہ نوٹیفکیشن واپس نہیں لے لیتی،اس کے علاوہ وفاقی پانی و بجلی کی وزارت کو صوبہ سندھ میں لوڈشیڈنگ میں بھی مناسب حد تک کمی کرنی پڑے گی۔یہ فیصلہ پیر کو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت حکومت سندھ اور وفاقی وزارت پانی و بجلی کے اجلاس میں کیا گیا۔اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ و توانائی سید مراد علی شاہ،چیف سیکریٹری سندھ محمد صدیق میمن، پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو،سیکریٹری خزانہ سہیل راجپوت نے حکومت سندھ کی طرف سے نمائندگی کی،جبکہ وفاقی وزارت برائے پانی و بجلی کی نمائندگی وفاقی سیکریٹری یونس دھاگا،حیسکو کے سی ای او سلیم خان اور سیپکو کے سی ای او فرمان اﷲ نے کی۔اجلاس میں سیکریٹری پانی و بجلی یونس دھاگا نے کہا کہ حیدرآباداور سکھر ریجن میں حکومت سندھ کے محکموںکے خلاف 9 – ارب روپے بقایاجات ہیں،انہوں نے کہا کہ یہ بقایاجات اصل میں 17- ارب روپے تھے تاہم بجلی کے بلوں کی ریکنسیلیشن کے بعد اب 9- ارب روپے بقایاجات ہیں۔جس میں سے حکومت سندھ کو 2.4-ارب روپے جاری کرنے ہیں،اس پر صوبائی وزیر خزانہ و توانائی مراد علی شاہ نے کہا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے پر حکومت سندھ کو بدنام کیا جا رہا ہے،مگر حقیقت میں سندھ کو اضافی بل دیئے گئے تھے،جس کی مثال حیسکو اور سیپکو کی طرف سے 17- ارب روپے کے دعویٰ ہیں،مگرریکنسیلیشن کے بعد یہ رقم اب کم ہوکر 9- ارب روپے تک آگئی ہے، انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت پانی و بجلی نے حال ہی میں ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے لگانے پر پابندی لگادی ہے،یہ جانتے ہوئے کہ سندھ میں وسیع ونڈ کوریڈور ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سرمایہ کار سندھ میں سرمائیکاری کرنے میں پہلے ہی ہچکچاہٹ کر رہے ہیں اوپر سے ونڈ اور سولر منصوبے لگانے پر پابندی کے وفاقی نوٹیفکیشن سے سندھ حکومت کی سرمایہ کاری کیلئے کوششوں کو دھچکا لگا ہے، جوکہ مناسب نہیں ہے اور نوٹیفکیشن کو واپس لیا جانا چاہیے۔جس پر سیکریٹری پانی و بجلی نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ نوٹیفکیشن میں ترمیم کریں گے یا واپس کرلیں گے۔سید مراد علی شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ نوٹیفکیشن ہر صورت میں واپس ہونا چاہیے، تاکہ صوبے سندھ میں متبادل توانائی میں سرمایہ کاری کیلئے موزون ماحول پیدا کیا جا سکے۔صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے مہنگی ایل این جی درآمد کرنے کا یک طرفہ فیصلہ کیا ہے اور اسے سندھ کو دیا ہے اور سندھ میں پیدا ہونے والی کم قیمت قدرتی گیس پنجاب کو دیناچاہتی ہے،جس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے ہمیں ایک مبہم خط بھی ارسال کیا ہے،جس کی ہم کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں دینگے،یہ تمام اشوز پہلے حل کئے جائیں جس کے بعد ہی ہم حیسکو اور سیپکو کے بقایاجات ادا کریں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ زیریں سندھ میں 15سے 18گھنٹے کی روزانہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ سندھ میں اس وقت زیادہ گرمی ہے اور لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں،یہ بہتر ہوگا کہ حیسکو اور سیپکو کا انتظام حکومت سندھ کو دیا جائے۔سیکریٹری پانی و بجلی یونس دھاگا نے کہا کہ وہ حیسکو اور سیپکو کے بورڈز میں کمشنرز کو شامل کر سکتے ہیں،تاکہ متعلقہ علاقوں میںبجلی کی تقسیم کے حوالے سے انکی رائے شامل کی جائے۔اس کے علاوہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جس میں علاقے کے معززیں اور ڈپٹی کمشنرز شامل کئے جائیں گے، تاکہ لوڈشیڈنگ کا شیڈول اور دیگر معاملات حل کئے جا سکیں۔جس کے حوالے سے میں نے چیف سیکریٹری سندھ محمد صدیق میمن سے بھی ملاقات کی ہے۔یونس دھاگا نے مزید کہا کہ 2011میں سندھ حکومت کے خلاف 63- ارب روپے بجلی بلز کے بقایاجات تھے۔صوبائی سیکریٹری خزانہ نے وفاقی سیکریٹری یونس دھاگا کو بتایا کہ خیبرپختونخواہ کے مقابلے میں سندھ کو اضافی بل دیئے جا رہے ہیں،تاہم سندھ نے پہلی ہی 7- ارب روپے ادا کردیئے ہیں،یہ بات ذہن میں رہے کہ سیپکو نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت سندھ کو 10356بجلی کے کنیکشن دیئے گئے ہیں، جس میں سے 343کنیکشن ری کنسائل کئے گئے ہیں اور سیپکو نے 1.5- ارب روپے بجلی کے بلوں کا دعویٰ کیا ہے، وفاقی سیکریٹری نے سندھ حکومت کو 2.4بلین روپے رلیز کرنے کی گذارش کی،جس پر صوبائی وزیر سید مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ رقم تب جاری کی جائے گی جب سندھ حکومت کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔انہوں نے وفاقی سیکریٹری پر زور دیا کہ سندھ حکومت کے تمام بجلی کے کنیکشن پر میٹر نصب کئے جائیں تاکہ منصفانہ بلنگ ہو سکے۔وزیراعلیٰ سندھ نے بھی وفاقی سیکریٹری یونس دھاگا کو صوبہ سندھ میں دیہات کو بجلی کی فراہمی کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیا جس کیلئے حیسکو کو پانچ سو ملین اور سیپکو کو تین سو ملین ادا کردیئے گئے ہیں۔