علمی سرقے کے مجرم کو تمغہ امتیاز سے نواز دیا گ

27  اپریل‬‮  2015

اسلام آباد: اگرچہ حکومت نے علمی سرقے پر بلیک لسٹ کیے گئے ایک علمی شخصیت کو ایک ایوارڈ سے نوازے جانے کے فیصلے کی منسوخی کے بارے میں کوئی اقدام نہیں اْٹھایا ہے، اسی دوران ان کے خلاف علمی سرقے کا ایک اور کیس منظرِ عام پر آگیا ہے۔23 مارچ کو صدر ممنون حسین نے ڈاکٹر مسرور اکرام کو تمغہ امتیاز سے نوازا، جنہیں اعلیٰ تعلیم کے کمیشن نے بلیک لسٹ کردیا تھا۔ ڈاکٹر مسرور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز (پی آئی ای اے ایس) میں پڑھاتے ہیں۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے پی آئی ای اے ایس کے چار پروفیسروں سمیت ڈاکٹر مسرور اکرم کو علمی سرقے کا مجرم پایا تھا۔چاروں اساتذہ کو اس سال جنوری میں کم از کم دو سالوں کے لیے ’’بلیک لسٹ اسکالر‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم متعلقہ حکام نے اس حقیقت کو صدر سے پوشیدہ رکھا، جنہوں نے اس مرتبہ یومِ پاکستان پر انہیں ایوارڈ سے نوازا تھا۔بعد میں یہ معاملہ جب میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آیا تو وزیراعظم کے آفس نے حقائق کا تعین کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے تفصیلات طلب کیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری ابھی جاری ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک اس پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔اسی دوران ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ پروفیسر نے ایک اور تحقیقی مقالے میں علمی سرقے کا بھی ارتکاب کیا تھا، جو 2005ء4 میں کینسر کی تحقیق کے ایک بین الاقوامی جریدے میں شایع ہوچکا تھا۔ڈان کو دستیاب ہونے والی اس تحقیقی مقالے کی نقل کے مطابق ڈاکٹر سرور اکرام نے ڈاکٹر شمراز فردوس اور ایک دوسرے مصنف کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ شایع کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مقالے کا ایک اہم حصہ مختلف مطبوعات سے نقل کیا گیا تھا۔ڈاکٹر شمراز پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کے ان چار فیکلٹی ممبرز میں شامل ہیں، جنہیں اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے بلیک لسٹ قرار دیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سرور اکرام اور ڈاکٹر شمراز کے اس تحقیقی مقالے 70 فیصد فیصد نقل فہرست کی مماثلت، 41 انٹرنیٹ ذرائع، 59 مطبوعات اور 9 طالبعلموں کے مقالات سے لیے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ تاہم اس مقالے کو اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے اب تک سرقہ قرار نہیں دیا ہے، اس لیے کہ تاحال یہ معاملہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی سرقہ کمیٹی نے نہیں اْٹھایا ہے۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مقاملہ 2005ء4 میں شایع ہوا تھا، جبکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن علمی سرقے کے معاملات کی چھان بین 2007ء4 میں شروع کی تھی۔ڈاکٹر سرور اکرام سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے 2005ء4 میں شایع ہونے والے مقالے کو اپنا ذاتی مقالہ قرار دیا، تاہم انہوں نے کہا کہ ’’مبینہ نقل شدہ مواد کو دیکھے بغیر جس کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں، میں مزید تبصرہ نہیں کرسکتا۔‘‘تمغہ امتیاز کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بلیک لسٹ قرار دیے جانے کے خلاف ایک اپیل دائر کردی ہے، اور اس سلسلے میں فیصلے کا انتظار ہے۔‘‘



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…