ہفتہ‬‮ ، 28 دسمبر‬‮ 2024 

عدالتی کمیشن کمیشن کا قیام عدالت عظمٰی کو سیاسی صفائی کے لیے استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے،تجزیہ کار

datetime 8  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اپنی سودے بازی کے اختتام کے ایک دن بعد پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں لوٹ آئی۔ ایک دن قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے سپریم کورٹ کو اس عدالتی کمیشن کے لیے تین ججوں کی نامزدگی کی تحریری درخواست دی تھی، یہ عدالتی کمیشن 2013ئکے عام انتخابات میں دھاندلی اور بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرے گا۔سیکریٹری قانون محمد رضا خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار طاہر شہباز کو تحریر کیے گئے ایک صفحے کے خط میں کہا گیا ہے کہ یہ درخواست چیف جسٹس ناصرالملک کے سامنے پیش کردیں۔لیکن قانونی ماہرین کو اب بھی اس پر یقین نہیں ہے، ایک سینئر وکیل نے ملک کے معروف انگریزی اخبار ڈان کو بتایا کہ وفاقی حکومت کا یہ خط عدالت عظمٰی کو اپنی سیاسی صفائی کے لیے استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ایک سیاسی جھگڑے میں کھینچنے کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ عدلیہ پر سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔‘‘
سیکریٹری قانون کی جانب سے چیف جسٹس کو بھیجا جانے والا اپنی نوعیت یا یہ دوسرا خط ہے۔ 13 اگست 2014ء4 کو وزیراعظم نواز شریف کے ٹیلیویڑن پر خطاب کے فوراً بعد بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اسی طرح کا خط سپریم کورٹ کو تحریر کیا تھا، اس خطاب میں وزیراعظم نے سپریم کورٹ سے تین ججوں پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

حالیہ خط میں کہا گیا ہے کہ ’’میں وفاقی حکومت کی یہ درخواست نہایت احترام کے ساتھ معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ براہِ مہربانی 2013ء4 کے عام انتخابات کے انکوائری کمیشن آرڈیننس 2015ء4 کے سیکشن 2 کی پیروی میں سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں کو ایک کمیشن کی تشکیل کے لیے نامزد کریں۔‘‘منگل کو یہ خط ایک مہربند لفافے میں سپریم کورٹ کے سیکریٹیریٹ بھیجا گیا، اور بعد میں یہ خط صدر ممنون حسین کی جانب سے تین اپریل کو عدالتی کمیشن آرڈیننس 2015ء4 کے اجراء4 کے بعد چیف جسٹس کے دفتر میں پہنچا۔پچھلے موقع پر سپریم کورٹ نے اس سے خود کو دور رہنے کو ترجیح دی تھی، اور آٹھ مہینے گزرجانے کے باوجود عدالت اس محاذ پر آگے نہیں بڑھی تھی۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ آفس نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عدالت کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ ’’اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو میڈیا کو اس پیش رفت سے آگاہ کردیا جائے گا۔‘‘
لیکن ہر ایک کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا اس دوسرے خط کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا؟ تاہم سیاسی رہنما دوسرے انداز سے سوچتے ہیں۔پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی جو مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان معاہدے کے مسودے کی تیاری میں بھی شریک رہے تھے، انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے عدالتِ عظمی کو تحریر کیے گئے خط کا خیرمقدم کیا ہے۔اس کے علاوہ عارف علوی نے اس مرتبہ امید ظاہر کی کہ عدالت انتخابی دھاندلی کے الزمات کی مکمل تحقیقات کے لیے دی گئی اس درخواست سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھے گی۔انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس موقع پر کارروائی کرے گی، اس مقبول اور معقول مطالبے کی وجہ سے اس پر زبردست دباؤ ہے، یہ معاملہ عظیم قومی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘عارف علوی نے کہا کہ پچھلی مرتبہ بھیجی گئی اس طرح کی درخواست کا حکومت نے اس طرح سے تعاقب نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اس وقت عدالتِ عظمی بھی اس لیے الجھن میں تھی کہ کمیشن کے لیے حکومت کی جانب سے پیش کی گئی شرائط پر پی ٹی آئی رضامند نہیں تھی اور شاید وضاحت کا انتظار کررہی تھی۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت نے اس معاہدے کے تحت جو کرنا تھاوہ کردیا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر اب بھی عدالت خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے تو ان کی پارٹی کا ردّعمل کیا ہوگا، تو انہوں نے کہا ’’ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، جو ہم نے پہلے ہی کردیا ہے، یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے خط تحریر کرکے پی ٹی آئی کے لیے عزت بچانے کا ایک موقع دیا تھا۔ ’’عدالتی کمیشن کے لیے کیا گیا مطالبہ صرف ان منصوبوں اور سازشوں کے لیے ایک پردہ تھا، جو ایک قانونی طور پر منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔انہوں نییاد دلایا کہ بین الاقوامی مبصرین اور این جی اوز نے گزشتہ انتخابات کوملکی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف انتخابات قرار دیا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…