قصور(نیوز ڈیسک) سانحہ یوحناآباد کے بعد جلایا گیا نعیم عام شہری نکلا اور قصور کا رہائشی تھا‘ میڈیا سے بات کرتے ہوئے محمد نعیم کی بہن کا کہنا تھا کہ اس کا بھائی دکان کے لیے شیشہ خریدنے کیلئے صبح 8 بچے لاہور گیا تھا‘ 2 گھنٹے بعد اس کا فون آیا کہ لاہور میں بم دھماکا ہو گیا ہے اس کے بعد اس کا فون بند ہو گیا‘ محمد نعیم کی ماں کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا نمازی اور پرہیز گار تھا وہ کبھی ممنوعہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہوا‘ نعیم کا باپ محمد شفیع صدمے سے نڈھال ہونے کے باعث میڈیا سے بات نہ کر سکا‘ نعیم کی والدہ کا کہنا تھا کہ کیا حکومت میرے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرے گی‘ محمد نعیم کی ہلاکت کی خبر کے بعد مسیحی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا کسی بھی نا گہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس موقع پر پہنچ گئی‘ رانا ثناے اللہ بے خبر تھے یا پھر سیاسی مصلحتوں کے تحت حقائق چھپائے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں البتہ نعیم کے گھر کا پتہ معلوم کرنے کے بعد اس کی دکان کا کھوج لگا لیا گیا ہے‘ عظیم ایلومینیم سینٹر کے نام سے نعیم کی دکان تو مالک کی موت کے بعد سے بند ہے تاہم اس واقعہ نے تحقیقات کرنے والوں کی کارکردگی کا پول کھول دیا گیاہے‘ ادھر سانحہ یوحنا آباد کے بعد جلائے گئے شخص کا مقدمہ درج کروانے کے لیے اسکے بھائی محمد سلیم نے تھانہ نشتر ٹاؤن میں درخواست دے دی