لاہور(نیوز ڈیسک)ایل این جی کی درآمد کے معاہدے میں تاخیر کے باعث حکومت یومیہ بنیادوں پر پونے تین کروڑ روپیہ جرمانہ ادا کرے گی۔ایل این جی کی درآمد کیلئے کراچی میں خصوصی طور پر تیار کیا جانیوالا ٹرمینل تیار ہو گیا ہے تاہم معاہدہ میں تاخیر کی صورت میں حکومت ٹرمینل کمپنی کو یومیہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر(دو کروڑ 74لاکھ روپے )جرمانہ کی مد میں ادا کرے گی ۔اس صورتحال میں ایل این جی کی درآمد بھی ملکی خزانہ پر بوجھ بن جائے گی ۔ معاہدہ نہ ہونے کے باعث مائع قدرتی گیس کو عام گیس میں تبدیل کرنے کے لئے فلوٹنگ سٹوریج ری گیس فکیشن یونٹ (FSRU) کی پاکستان آمد کا شیڈول بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔ ٹرمینل معاہدہ کے مطابق حکومت کو 31 مارچ سے ایل این جی درآمد کرنا ہے ۔ حکومت ابتدائی طور پر پاور سیکٹر کیلئے ایل این جی درآمد کر رہی ہے ۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کے باعث انٹرنیشنل سپلائرز پاکستانی حکومت سے درآمدی معاہدے کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں دوسری جانب حکومت کی جانب سے ادائیگیوں کا شیڈول انتہائی ناقص ہونے کے باعث ملک میں کام کرنے والی آئی پی پیز کمپنیاں نے بھی ایل این جی کی درآمد کے لئے بیک ٹو بینک ایل سی معاہدے کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ حکومت اور انٹرنیشنل سپلائرز کے درمیان ایل این جی کی درآمد کے حتمی معاہدے کے بعد پی ایس او ، سوئی سدرن ، سوئی ناردرن اور اوگرا کے درمیان ادارہ جاتی معاہدہ بھی ہونا ہے اس میں کم سے کم سات سے دس دن لگیں گے ۔ ایل این جی خریدنے کے معاہدے کے بعد ملک میں ایل این جی کی ادائیگیوں کا طریقہ کار تیار کرنے کا عمل بھی ابھی باقی ہے اس میں بھی کم سے کم دس سے پندرہ دن درکار ہوں گے ۔حکومت نے پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل کی تیاری کا کام اینگرو ایل این جی پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا ہے ۔ معاہدہ کے مطابق مائع قدرتی گیس کو عام گیس میں تبدیل کرنے کے لئے فلوٹنگ سٹوریج ری گیس فکیشن یونٹ (FSRU) بھی اسی کمپنی نے درآمد کرنا ہے ۔ معاہدہ کے مطابق کمپنی نے ٹرمینل کو 31 مارچ 2015 تک درآمد کے لئے تیار کرنا ہے اگر کمپنی ٹرمینل تیار نہ کر سکی تو کمپنی حکومت کو جرمانہ دینے کی پابند ہے اور دوسری جانب اگر حکومت 31 مارچ سے ایل این جی درآمد نہ کر سکی تو حکومت کمپنی کو بطور جرمانہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر )دو کروڑ 74لاکھ روپے ( ادا کرنے کرنے کی پابند ہے ۔ حکومت کی جانب سے ایل این جی درآمد کے معاہدے کو حتمی شکل نہ دینے کے باعث کمپنی نے ایف ایس آر یو یونٹ کی درآمد کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا ہے یونٹ پاکستان لانے کے لئے دبئی کی بندر گاہ پر لنگر انداز بحری جہاز میں لوڈ ہے پہلے جہاز نے سات مارچ کو وہاں سے روانہ ہو کر دس مارچ کو پاکستان پہنچ جانا تھا حکومت کی جانب سے معاہدہ نہ کئے جانے کے باعث کمپنی یونٹ لانے کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے ۔ دبئی سے جہاز کی روانگی میں تاخیر کے باعث چارجز میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے اخراجات مزید بڑھ رہے ہیں کمپنی ذرائع کے مطابق اب جہاز پندرہ مارچ کو دبئی سے روانہ ہو گا اور اٹھارہ مارچ تک پہنچ جائے گا نجی ٹرمینل کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم پر ٹرمینل کی تیاری کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے ۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کسی بھی صورت میں 31 مارچ سے ایل این جی کی درآمد شروع نہیں کر سکتی ہے اگر حکومت کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر بھی کام کیا جائے تو مقررہ تاریخ سے ایک ماہ کی تاخیر لازمی ہے اس صورت حال میں حکومت 82 لاکھ 20 ہزار ڈالر بطور جرمانہ ادا کرے گی۔ اینگرو ایل این جی پرائیویٹ کمپنی کے سی ای او شیخ عمران کے مطابق کمپنی نے ٹرمینل کی تیاری پر 135 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں ۔ حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ 31 مارچ سے ایل این جی کی درآمد شروع کر دی جائے گی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ معاہدے کے نفاذ میں صرف 17 دن رہ گئے ہیں اور حکومت تا حال درآمد کا حتمی معاہدہ بھی نہیں کر سکی ہے معاہدہ کے بعد ادارہ جاتی معاہدے اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کے تعین میں بھی وقت درکار ہو گا ۔ حکومت معاہدہ کے مطابق جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کی جانب سے درآمدی تاریخ میں توسیع نہیں کی جائے گی ۔لاہور(صبغت اللہ چودھری)ایل این جی کی درآمد کے معاہدے میں تاخیر کے باعث حکومت یومیہ بنیادوں پر پونے تین کروڑ روپیہ جرمانہ ادا کرے گی۔ایل این جی کی درآمد کیلئے کراچی میں خصوصی طور پر تیار کیا جانیوالا ٹرمینل تیار ہو گیا ہے تاہم معاہدہ میں تاخیر کی صورت میں حکومت ٹرمینل کمپنی کو یومیہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر(دو کروڑ 74لاکھ روپے )جرمانہ کی مد میں ادا کرے گی ۔اس صورتحال میں ایل این جی کی درآمد بھی ملکی خزانہ پر بوجھ بن جائے گی ۔ معاہدہ نہ ہونے کے باعث مائع قدرتی گیس کو عام گیس میں تبدیل کرنے کے لئے فلوٹنگ سٹوریج ری گیس فکیشن یونٹ (FSRU) کی پاکستان آمد کا شیڈول بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔ ٹرمینل معاہدہ کے مطابق حکومت کو 31 مارچ سے ایل این جی درآمد کرنا ہے ۔ حکومت ابتدائی طور پر پاور سیکٹر کیلئے ایل این جی درآمد کر رہی ہے ۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کے باعث انٹرنیشنل سپلائرز پاکستانی حکومت سے درآمدی معاہدے کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں دوسری جانب حکومت کی جانب سے ادائیگیوں کا شیڈول انتہائی ناقص ہونے کے باعث ملک میں کام کرنے والی آئی پی پیز کمپنیاں نے بھی ایل این جی کی درآمد کے لئے بیک ٹو بینک ایل سی معاہدے کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ حکومت اور انٹرنیشنل سپلائرز کے درمیان ایل این جی کی درآمد کے حتمی معاہدے کے بعد پی ایس او ، سوئی سدرن ، سوئی ناردرن اور اوگرا کے درمیان ادارہ جاتی معاہدہ بھی ہونا ہے اس میں کم سے کم سات سے دس دن لگیں گے ۔ ایل این جی خریدنے کے معاہدے کے بعد ملک میں ایل این جی کی ادائیگیوں کا طریقہ کار تیار کرنے کا عمل بھی ابھی باقی ہے اس میں بھی کم سے کم دس سے پندرہ دن درکار ہوں گے ۔حکومت نے پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل کی تیاری کا کام اینگرو ایل این جی پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا ہے ۔ معاہدہ کے مطابق مائع قدرتی گیس کو عام گیس میں تبدیل کرنے کے لئے فلوٹنگ سٹوریج ری گیس فکیشن یونٹ (FSRU) بھی اسی کمپنی نے درآمد کرنا ہے ۔ معاہدہ کے مطابق کمپنی نے ٹرمینل کو 31 مارچ 2015 تک درآمد کے لئے تیار کرنا ہے اگر کمپنی ٹرمینل تیار نہ کر سکی تو کمپنی حکومت کو جرمانہ دینے کی پابند ہے اور دوسری جانب اگر حکومت 31 مارچ سے ایل این جی درآمد نہ کر سکی تو حکومت کمپنی کو بطور جرمانہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر )دو کروڑ 74لاکھ روپے ( ادا کرنے کرنے کی پابند ہے ۔ حکومت کی جانب سے ایل این جی درآمد کے معاہدے کو حتمی شکل نہ دینے کے باعث کمپنی نے ایف ایس آر یو یونٹ کی درآمد کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا ہے یونٹ پاکستان لانے کے لئے دبئی کی بندر گاہ پر لنگر انداز بحری جہاز میں لوڈ ہے پہلے جہاز نے سات مارچ کو وہاں سے روانہ ہو کر دس مارچ کو پاکستان پہنچ جانا تھا حکومت کی جانب سے معاہدہ نہ کئے جانے کے باعث کمپنی یونٹ لانے کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے ۔ دبئی سے جہاز کی روانگی میں تاخیر کے باعث چارجز میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے اخراجات مزید بڑھ رہے ہیں کمپنی ذرائع کے مطابق اب جہاز پندرہ مارچ کو دبئی سے روانہ ہو گا اور اٹھارہ مارچ تک پہنچ جائے گا نجی ٹرمینل کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم پر ٹرمینل کی تیاری کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے ۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کسی بھی صورت میں 31 مارچ سے ایل این جی کی درآمد شروع نہیں کر سکتی ہے اگر حکومت کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر بھی کام کیا جائے تو مقررہ تاریخ سے ایک ماہ کی تاخیر لازمی ہے اس صورت حال میں حکومت 82 لاکھ 20 ہزار ڈالر بطور جرمانہ ادا کرے گی۔ اینگرو ایل این جی پرائیویٹ کمپنی کے سی ای او شیخ عمران کے مطابق کمپنی نے ٹرمینل کی تیاری پر 135 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں ۔ حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ 31 مارچ سے ایل این جی کی درآمد شروع کر دی جائے گی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ معاہدے کے نفاذ میں صرف 17 دن رہ گئے ہیں اور حکومت تا حال درآمد کا حتمی معاہدہ بھی نہیں کر سکی ہے معاہدہ کے بعد ادارہ جاتی معاہدے اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کے تعین میں بھی وقت درکار ہو گا ۔ حکومت معاہدہ کے مطابق جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کی جانب سے درآمدی تاریخ میں توسیع نہیں کی جائے گی ۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں