نئی دہلی(نیوزدیسک)جنتا دل متحدہ (جے ڈی یو) کے سربراہ شرد یادیو نے ہندوستان کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں دورانِ بحث کے دوران اپنے بیان کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر تنقید کے نشانے پر ہیں۔راجیہ سبھا میں انشورنس بل پر بحث کے دوران شرد یادیو نے اچانک جنوبی ہندوستان کی خواتین کا ذکر چھیڑ دیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جنوبی ہند کی خواتین کا رنگ تو سانولا ہوتا ہے لیکن ان کا جسم کافی خوبصورت ہوتا ہے۔تقریر کے دوران جنوبی ہند کی خواتین کے سانولے رنگ اور ان کے جسم کی ساخت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اگرچہ شرد یادیو نے خواتین کے جسم کی ساخت کو الفاظ میں بیاں نہیں کیا لیکن ان کے ہاتھ کا اشارہ بہت کچھ کہہ رہا تھا۔ ان کے اس تبصرے پر بہت سے اراکین قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔ان کے اس بیان پر ہندوستان بھر میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔یاد رہے کہ ایوان میں انشورنس بل پر جاری بحث میں شرد یادیو حصہ لے رہے تھے۔ اسی دوران وہ گورے رنگ کے حوالے سے ہندوستانیوں کی دیوانگی کے بارے پر تبصرہ کرنے لگے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے لوگوں میں گورا رنگ حاصل کرنے کا جنون بڑھتا جارہا ہے۔ شادی کے رشتوں کے لیے دیے جانے والے اشتہارات میں گورے رنگ کی لڑکی کی شرط رکھی جاتی ہے۔اسی دوران شرد یادیو اچانک جنوبی ہندوستان کی خواتین کے سانولے رنگ اور ان کے جسم کی ساخت پر تبصرہ کرنے لگے، گوکہ انہوں نے خواتین کی جسمانی ساخت کو اپنے الفاظ کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش نہیں کی، البتہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔ان کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما راجیو شکلا نے کہا کہ انہیں اپنے بیان پر معافی مانگنی چاہیے۔سی پی ایم کے رہنما وردا کرات نے اسے شرمناک اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو ایوان کے ریکارڈ سے خارج کردینا چاہیے۔بائیں بازو کی پارٹی کے ایک اور رہنما پی راجیو کا کہنا تھا کہ جب انشورنس بل پر بحث جاری تھی تو اس دوران انہیں خواتین کے جسم پر تبصرہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔دوسری جانب جنتا دل متحدہ کے سینئر رہنما کیسی سولٹیئر نے کہا کہ اگر پارٹی رہنما کے اس بیان سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو انہیں اس کا افسوس ہے۔لیکن جنتا دل کے صدر شرد یادیو نے پارلیمنٹ میں جنوبی ہند کی خواتین کے جسم اور رنگ پر کیے گئے تبصرے پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ شرد یادیو کا کہنا ہے کہ میں نے جو کچھ کہا وہ غلط نہیں تھا، لہٰذا معافی نہیں مانگوں گا۔انہوں نے کہا’’میں صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ باقی باتیں رہیں ایک طرف، ہم غیر ملکیوں کے گورے رنگ کیحوالے سے کس قدر دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔250 سال انگریزوں نے ہم پر حکومت کی، اب بھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تہذیب ہم سے زیادہ بلند ہے۔ ہم ان کے رنگ تک سے ڈرے ہوئے ہیں، مثال کے طور پر کچھ دن پہلے وہ گوری خاتون دستاویزی فلم بنانے ہندوستان آئی، تو اسے ہر کوئی اجازت دیتا چلا گیا۔ یہ حقیقت ہے۔ میں نے اسی نفسیات کو بیان کیا تھا۔‘‘جنوبی ہند کی خواتین کے رنگ کے حوالے سے شرد یادیو نے کہا ’’میں نے کہا تھا کہ رنگ پر مت جائیے۔ لوگ شادی کے اشتہارات میں لکھتے ہیں کہ گوری لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔میں نے اسی سوچ پر تنقید کی تھی۔ جنوبی ہندوستان میں آرٹ، موسیقی اور خاص طور پر رقص کی روایت عام ہے۔ خواتین یا مرد، کوئی بھی ہو … اگر بچپن سے رقص کرتا ہے تو اس کی جسمانی ساخت خوبصورت ہوجاتی ہے۔ رنگ کو خوبصورتی کا پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘شرد یادو نے کہا کہ ہمارا تو رنگ ہی یہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بات یہ نہیں ہے کہ یہاں کا رنگ کیسا ہے، وہاں کا کیسا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے تو بھگوان بھی سانولے تھے، رام اور کرشن سانولے تھے۔ اس لیے رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔‘‘اس سوال پر کہ اگر آپ کی باتوں سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچی ہو، تو کیا آپ اس کے لیے معذرت کرنا چاہیں گے، تو شرد یادیو نے کہا’’میں کیا غلط کہا؟ جب میں نے کچھ غلط نہیں کہا، تو معافی کس بات پر مانگی جائے۔‘‘