پشاور(نیوز ڈیسک) لگ بھگ پانچ ماہ قبل خیبرپختونخوا (کے پی) اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر امتیاز شاہد قریشی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے مگر صوبائی اسمبلی میں اب تک ان کی جگہ کسی نئے ڈپٹی اسپیکر کی آمد نہین ہوسکی جس نے جمہوری عمل کو مذاق بنادیا ہے۔
کے پی اسمبلی کے کنڈکٹ آف بزنس 1988 اور آئین پاکستان کی مختلف شقوں کو دیکھا جائے تو ایک ڈپٹی اسپیکر یا اسپیکر کے عہدے پر کسی کی تعیناتی رواں سیشن یا اس سے اگلے سیشن میں لازمی ہے۔
تیکنیکی طور پر پر کے پی اسمبلی لگ بھگ پانچ ماہ سے ایک ہی سیشن پر چل رہی ہے، یعنی ایک ہی سیشن کو متعدد عارضی التواءکے ساتھ توسیع دی جارہی ہے جس کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر میں ہوا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اوپر دیئے گئے قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی۔
مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اکتوبر سے اب تک متعدد اسمبلی سیشنز کو پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اسپیکر اسد قیصر نے محض بیس یا تیس منٹ کی کارروائی کے ملتوی کیا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر پر تنقید کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماءسردار حسین بابک نے کہا کہ اسد قیصر اپنی پارٹی کے سیاسی امور میں زیادہ حصہ لے رہے ہیں جو کہ مقننہ کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا ” ایک اسپیکر کو غیرجانبدار ہونا چاہئے، اسے ایوان کا سرپرست ہونا چاہئے”۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ایوان میں اٹھایا گیا مگر صوبائی حکومت نے اب تک اسے نظرانداز کیا ہے ” اپوزیشن کو آخرکار عدالت کا ہی رخ کرنا پڑے گا”
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے رکن صوبائی اسمبلی منور خان نے اس حوالے سے کہا کہ صوبائی حکومت کو خود اپنے اراکین پر اعتماد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ نئے ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لیے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔