پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ پہلے دو میچز جس طرح ہاری اس پر پوری قوم دکھی تھی‘ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ابتدائی دو میچز کی کارکردگی پر سابق کھلاڑیوں ‘ میڈیا اور تجزیہ نگاروں نے کھل کر تنقید کی مگر پاکستان کے سابق فاسٹ باﺅلر شعیب اختر نے تو حد ہی کردی‘ شعیب اختر پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی بجائے قومی ٹیم کی تضحیک کر تے رہے‘ تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن تضحیک ناقابل برداشت ہوتی ہے اور طنز کے نشتر اگر بھارت میں بیٹھ کر برسائے جائیں تو اس پر دل اور بھی دکھی ہو جاتا ہے۔ شعیب اختر بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستانی ٹیم کی تضحیک کو اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں‘ اب یہ تو شعیب ہی بتا سکتے ہیں کہ بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر وہ ایسی گھٹیا زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں‘ شاید اس کی وجہ سستی شہرت کا حصول ہو لیکن موصوف تبصرہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں کےلئے اکثر ”تو“ کا لفظ استعمال کر جاتے ہیں۔ موصوف کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ 92ءکا ورلڈ عمران خان نے نہیں بلکہ شعیب اختر نے جتوایا ہو اور بھارت کی تمام کامیابیوں کے پیچھے شعیب اختر کا ہاتھ ہو۔ جوش خطابت میں شعیب اختر مصباالحق اور یونس خان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کی عمر کا بھی مذاق اڑاتے ہیں‘ سابق فاسٹ باﺅلر نے اوپننگ بیٹسمین ناصر جمشید کی فٹنس کو اپنی70 سالہ پھوپھی سے بہتر قرار دیا تھا‘موصوف یونس خان کو ون ڈے اسکواڈ میں واپس لانے کے بھی سخت مخالف تھے ‘ شعیب اختر کی اپنی کارکردگی ورلڈکپ میں کیسی تھی اس کےلئے ان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ورلڈ کپ 2011ءکا میچ نکال کر دیکھ لیں اور یہی میچ شعیب اختر کے کیریئر کا آخری میچ بھی ثابت ہوا تھا‘ اس میچ میں نیوزی لینڈ کے مڈل آرڈر بلے باز روز ٹیلر نے شعیب اختر کی دل کھول کر دھلائی کی تھی‘ شعیب اختر نے اس میچ میں 9 اوورز میں 70 رنز کی پٹائی برداشت کی تھی‘ اس جرم کی پاداش میں شعیب اختر کوورلڈ کپ 2011ءکے سیمی فائنل میں انڈیا خلاف اسی خوف سے نہیں کھلایا گیا تھا کہ موصوف دو اوورز کرانے کے بعد ہانپنے لگ جاتے تھے اور ورلڈ کپ کا سیمی فائنل جو کسی بھی ٹیم کےلئے انتہائی اہم ہوتا ہے وہ موصوف نے ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر دیکھا۔
شعیب اختر حال ہی میں اپنی فیملی کے ہمراہ عمرے سے واپس آئے ہیں‘ عمرے سے واپس
آتے ہی موصوف پہلے توایک فیشن شو میں اپنی بیگم کے ہمراہ جا پہنچے پھر انڈیا یاترا پر چلے گئے‘ وہاں انہوں نے ایک انڈین شو کامیڈی نائیٹ ود کپل میں تمام حدیں پار کر دیںاورشو
میں پاکستانی ٹیم کا مذاق اڑانے پر شدید تنقید کی زد میں آئے۔شو میں شعیب اختر نے کھلاڑیوں کی عمر، خراب انگریزی اور آفیشلز کا دل کھول کر مذاق اڑایا۔شعیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر”مصباح، یونس اورآفریدی کی عمریں جمع کی جائیں، تو یہ ٹیم 150 سال کی ہوجائے گی‘ ‘اور ان کے اس لطیفے پر لوگ ہنسنا شروع ہوگئے جبکہ شو میں ان کے ساتھ
شریک ہربھجن سنگھ نے انضمام الحق کو سست کہا تو شعیب اختر اس پر بھی ہنسے۔ محب وطن کہلوانے والے لوگوں کی طرف سے شعیب اختر پر بے تحاشہ ملامت کی گئی۔ شعیب نے شو میں سچن ٹنڈولکر کی اتنی تعریف کی کہ انہیں انسانیت سے بھی آگے کا درجہ دے دیا اور کہا کہ وہ تو عام انسانوں سے بہت آگے نکل گئے ہیں جبکہ وہ شاید یہ بھول گئے کہ موصوف نے اپنی کتاب “کونتروورشلی یورز” میں سچن ٹنڈولکر پر بہت تنقید کی تھی اور لکھا تھا کہ ”مجھے کھیلتے ہوئے سچن کی ٹانگیں کانپتی تھیں“ اور اس بات کو لے کر انڈیا میں شعیب اختر کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے‘ شعیب اختر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کی نقل بھی اتاری۔ شعیب انڈیا میں بیٹھ کر پاکستانی کھلاڑیوں پر تنقید اور طنز کر کے آخر چاہتے کیا ہیں؟ یہ سوال اس وقت ہر اس شخص کی زبان پر ہے جو اپنی کرکٹ ٹیم سے محبت کرت ہے‘ شعیب اختر کو ٹیم میٹس شعیب اختر کی بجائے شعیب ایکٹر کہتے تھے اور انڈیا میں بیٹھ کر شعیب اختر یہی کچھ کر رہے ہیں۔