کراچی (نیوز ڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ڈی جی رینجرز کو کہا تھا کہ اگر ان کی جماعت میں یا 90 کے ارد گرد کوئی دہشت گرد موجود ہے تو اس کا نام بتائیں وہ خود انہیں رینجرز کے حوالے کریں گے۔ ملک کے حالات تقاضا کرتے ہیں تو پاسپورٹ مل جائے تو وہ پاکستان آنے کو لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپہ مارنے میں رینجرز کی نیت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ اگر ان کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ 90 پر چھاپہ مارنے کے علاوہ ان کی بہن کے چھاپہ نہ مارتے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان کی بہن کے گھر چھاپا کیوں مارا گیا ہے جبکہ دوسری جانب رینجرز اہلکار کمبل میں اسلحہ چھپا کر لائے تھے جس کے بارے میں انہوں نے ظاہر کیا کہ وہ اسلحہ ان کے مرکز اور ان کی بہن کے گھر سے برآمد کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کاروائی سے متعلق وفاقی حکومت سمیت آرمی چیف اور صوبائی حکومت کو بھی علم تھا کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر کاروائی صرف اسی وجہ سے ہی کی جا سکتی ہے۔الطاف حسین نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لیے بہتر ہے کہ ملک میں مارشل لاءکا نفاذ کر دیا جائے اور اس وقت ملک میں مارشل لاءایسا شخص لگائے جو کمال اتا ترک کی خصوصیات کا حامل ہو تاکہ وہ اقتدار میں آ کر تمام کالی بھیڑوں کا صفایا کر دے۔انہوں نے کہا کہ اگر سیاست دانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو پھر کسی فوجی کا کیوں نہیں جبکہ ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں فوج کے چند لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اس وقت قانون کی گرفت میں ہے جبکہ اگر اس پر جرم ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیئے۔اگر تمام کاروائی قانون کے مطابق ہوتی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ صولت مرزا پر جرم ثابت ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ آخرت میں ہی ہو گا۔کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کو چھوڑنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا علم پارٹی کے دوسرے کارکنان کی جانب سے ہوا جبکہ آج کل پتا چلا ہے کہ وہ دبئی کی کسی کمپنی میں نوکری کر رہے ہیں۔انہوں نے مصطفیٰ کمال سے درخواست کی کہ پارٹی میں واپس آ جائیں اور دوبارہ پارٹی کے انتظامی امور سر انجام دیں۔پیپلز پارٹی کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نوک جھوک چلتی رہتی ہے لیکن کوئی لڑائی نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر میں غصہ یا کسی پریشانی کی وجہ سے کوئی بیان دیتا ہوں تو اس کے بعد معذرت بھی کر لیتا ہوں کیونکہ اس سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا اور بطور سیاسی پارٹی ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے۔ اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مل کر کام کریں گے تو سندھ میں نہ تو کسی کا ناحق خون بہے گا اور نہ ہی کوئی نا انصافی ہو سکے گی۔گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ اختلافات کی خبروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد عشرت العباد کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ وہ پارٹی کے اہم کارکن ہیں اور ان کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔