اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے نے ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ صحافی فخر درانی کے مطابق، ماضی میں کابینہ کی ریگولرائزیشن کمیٹی کے ذریعے مستقل کیے گئے ان ملازمین کی ملازمتیں اب خطرے کی زد میں آ چکی ہیں، جن میں گریڈ 16 اور اس سے بلند عہدوں پر فائز 34 ہزار سے زائد افسران بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 19 مارچ 2025 کو ایک باضابطہ یادداشت (نمبر 1/29/20-Lit-III) جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان تمام کیسز کو دوبارہ جائزے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجا جائے گا۔ یہ اقدام ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں اُٹھایا گیا ہے جس کی تشریح مختلف وزارتوں اور محکموں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین میں تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
متاثرہ افراد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل ہیں، جن میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز، سرجنز، نرسز، پروفیسرز، انجینئرز اور دیگر تجربہ کار پیشہ ور موجود ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے کورونا وبا، دہشت گردی اور دیگر قومی بحرانوں کے دوران اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں 1996 سے کنٹریکٹ پر مختلف سرکاری اداروں میں تعینات کیا گیا تھا، جہاں وہ باقاعدہ امتحانات، انٹرویوز اور سفارشات کے ذریعے منتخب ہوئے۔ بعد ازاں کابینہ کی منظوری سے انہیں مستقل کیا گیا۔ اب اچانک انہیں دوبارہ FPSC کے امتحانات اور انٹرویوز میں شامل کرنے کا فیصلہ ان کی ملازمت ختم کرنے کے مترادف ہے۔
ان ملازمین کا یہ بھی مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کا جس فیصلے کا حوالہ دیا جا رہا ہے، وہ تمام اداروں پر یکساں لاگو نہیں ہو سکتا، خاص طور پر ان اداروں پر جو اس عدالتی کارروائی کا حصہ ہی نہیں تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کی نوعیت اور عملدرآمد کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، اس لیے ایک ہی فیصلہ سب پر لاگو کرنا قانونی اور انتظامی طور پر درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کئی افراد 45 سے 55 سال کی عمر کے ہیں، جنہوں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ قوم کی خدمت میں گزارا ہے۔ اب انہیں دوبارہ امتحانات میں شامل کرنے کی تجویز ان کے لیے نوکری سے محرومی کے مترادف ہوگی۔